کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 219
ہے کہ اس نے لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں جن سے وہ زنا کاری کروا کے پیسے لیا کرتا تھا۔ یہ دو لونڈیاں تھیں، انھوں نے آکر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، جس پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلاَ تُکْرِھُوا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ} [النور: ۳۳] ’’اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔‘‘[1] فراہی گروہ کے ’’امامِ ثانی‘‘ نے لکھا ہے کہ آٹھ لونڈیاں تھیں، جن سے وہ کمائی کے لیے پیشہ کرواتا تھا۔ (تدبرِ قرآن) اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو مذکورہ آیت کے ذریعے سے تنبیہ فرما دی، حالاں کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، لیکن خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداﷲ بن ابی یا اس کی لونڈیوں کی سزا و تعزیر کا کوئی حکم نہیں دیا۔ ان دو مثالوں کے بیان سے مقصود عمار صاحب کی اس کج روی کی وضاحت ہے جس کا اظہار وہ زیرِ بحث صحابی اور صحابیہ کو، نعوذ باﷲ، منافق باور کرانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی منافق ہوتے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر حد ہی جاری نہ فرماتے۔ اگر وہ پیشہ ور بھی ہوتے تب بھی آپ ان پر حد جاری نہ فرماتے، کیوں کہ پھر یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ یہ مسلمان نہیں ہیں، بلکہ منافق ہیں۔ اس لیے کہ وہ دورِ رسالت کے مسلمان تھے جن سے بہ تقاضائے بشریت غلطی کا صدور تو ممکن تھا، جیسا کہ صدور ہوا بھی، لیکن اس کا تصور بھی ایمان کے منافی ہے کہ انھوں نے زنا کاری کے اڈے کھولے ہوئے اور چکلے قائم کیے ہوئے تھے۔ (نعوذ باللّٰه من ذلک) اس قسم کی بے بنیاد الزام تراشی اور تہمت طرازی ع انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
[1] صحیح مسلم، کتاب التفسیر (۲۶، ۲۷)