کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 218
قیامت تک پیش نہیں کر سکتے۔ یہ آیتِ محاربہ آپ کے گروہ پر ہی نازل نہیں ہوئی ہے، یہ چودہ سو سال سے قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ سیکڑوں مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کا مفہوم بیان کیا ہے۔ آپ کسی ایک مفسر یا قرآنی احکام کے جمع و تخریج کرنے والے ’’احکام القرآن‘‘ کے کسی ایک مصنف کا نام بتلا دیں، جس نے آیتِ محاربہ میں منافقین کو بالعموم اور مذکورہ صحابہ و صحابیہ کو بالخصوص اس آیت کا اور اس کی سزا کا مصداق قرار دیا ہو۔ عہدِ رسالت میں کسی منافق کو سزا نہیں دی گئی: جہاں تک عہدِ نبوی کے منافقین کا معاملہ ہے، ان کے عمل و کردار کی بابت بہت سی ایسی باتیں روایات میں ملتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں، لیکن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دنیوی مواخذہ نہیں فرمایا، ان کے لیے کسی تعزیر یا سزا کا اہتمام نہیں کیا۔ حتی کہ حرمِ رسول، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر انھوں نے تہمت دھر دی، جو واقعۂ افک کے نام سے مشہور ہے، اس کا سرغنہ رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبیّ تھا، اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار بعض مخلص مسلمان بھی ہوگئے، جیسے سیدنا حسان بن ثابت، سیدنا مسطح بن اثاثہ، سیدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم اور آیتِ براء ت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں پر حدِ قذف بھی جاری فرمائی۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث: ۳۱۸۱، و دیگر کتبِ حدیث) لیکن عبداﷲ بن ابی اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی پر بھی قذف کی یہ حد جاری نہیں فرمائی۔ علاوہ ازیں بالخصوص اسی عبداﷲ بن اُبی کی بابت روایات میں صراحت