کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 217
ان کی مدحت و منقبت کہا جائے؟ پھر تو شیعہ حضرات کی بھی صحابۂ کرام پر طعن و تشنیع کا جواز ثابت ہوجاتا ہے، اگر وہ بھی یہ کہیں کہ ہم ارادتاً اور دیدہ و دانستہ ایسا نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کے یہ یہ جرائم ہیں اور آپ کے گروہ کی طرح وہ بھی بے بنیاد ’’دلائل‘‘ پیش کر دیں، جیسا کہ وہ کرتے ہیں۔ ایسے ’’پوچ دلائل‘‘ سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آپ کی پالیسی تو پہلے ہی ان کے ’’کفریہ عقائد‘‘ کو نظر انداز کرنے کی ہے، کیا اب آپ ان کو صحابۂ کرام کی توہین سے بھی ’’پاک‘‘ قرار دے دیں گے؟ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین۔ عمار صاحب آگے فرماتے ہیں: ’’میرے جس اقتباس کو صریح بددیانتی سے کام لیتے ہوئے اور میری طرف سے وضاحت کے باوجود مسلسل صحابہ پر طعن کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل عہدِ نبوی کے منافقین سے متعلق ہے اور اس میں بھی طعن و تشنیع کے پہلو سے نہیں، بلکہ قرآن مجید کی ایک آیت کا مصداق متعین کرنے کے ضمن میں ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے، جو بدکاری کو بطورِ عادت اختیار کیے ہوئے تھے۔‘‘ ہم عرض کریں گے کہ الزام لگانے والے بددیانتی کا ارتکاب قطعاً نہیں کر رہے ہیں، بلکہ آپ کے استدلال کا پائے چوبیں خود آپ کے استدلال کی بے تمکینی کو بھی ظاہر کر رہا ہے اور صحابہ پر طعن و تشنیع کے الزام کا اثبات بھی۔ آپ نے اس وضاحتی اقتباس میں بھی ان پاک باز ہستیوں کو ’’منافقین‘‘ قرار دیا ہے اور آیتِ محاربہ کا بلا دلیل مصداق قرار دے کر فساد فی الارض کا مرتکب بھی۔ حالاں کہ ان دونوں باتوں کا ثبوت آپ اور آپ کے سارے گروہ کے محققین مل کر بھی