کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 216
ہے۔ اس کو عمار صاحب نے الزام سے تعبیر کیا ہے، حالاں کہ یہ الزام یا بے ثبوت بات نہیں ہے، ایک حقیقت ہے۔ الفاظ کی مینا کاری اور ’’پوچ دلائل‘‘ کے گورکھ دھندے سے اس الزام کو نہیں دھویا جا سکتا۔ ان کے ’’نظریۂ رجم‘‘ کی بنیاد ہی ان دونوں مقدس ہستیوں کو عادی زانی اور چکلے کی مخلوق ثابت کرنے پر ہے، اس کے بغیر ان کے نظریے کی خود ساختہ عمارت دھڑام سے گر جاتی اور زمین بوس ہوجاتی ہے۔ پھر اس کو ’’الزام‘‘ کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ اس الزام کی صفائی کے لیے بھی عمار صاحب نے وضاحت پیش کی ہے، لیکن وہ یکسر غیر تسلی بخش، غبار آلود چہرے پر غازہ پاشی اور ’’کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے‘‘ کے مصداق اس الزام کو بہ زبان خود ثابت کرنے والی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: ’’صحابۂ کرام پر طعن و تشنیع ایمان کے منافی ہے اور کوئی مسلمان ارادتاً اور دیدہ و دانستہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔‘‘[1] لیکن الزام لگانے والوں نے یہ کب کہا ہے کہ آپ نے ایسا ارادتاً اور دیدہ و دانستہ کیا ہے؟ ان کا کہنا تو یہ ہے (جس میں راقم بھی شامل ہے) کہ ارادی یا غیر ارادی اور شعوری یا غیر شعوری کی بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ نے اور آپ کے ’’بڑوں‘‘ نے جو اپنی طرف سے صغریٰ کبریٰ گھڑے ہیں اور اس سے جو ’’نتیجہ‘‘ اخذ کیا ہے، اس سے ان دونوں مقدس ہستیوں کی توہین ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ان کی طرف غنڈہ گردی، بدمعاشی اور عادی زناکاری کا جو جرم منسوب کر رہے ہیں، اس کا بھی کوئی ثبوت آپ نہ پیش کر سکے ہیں اور نہ کر ہی سکتے ہیں۔ پھر اسے توہین اور طعن و تشنیع نہ کہا جائے تو کیا
[1] ’’الشریعہ‘‘ خصوصی اشاعت (ص: ۱۸۷، جون ۲۰۱۴ء)