کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 215
مطمئن نہیں ہوسکا اور اس نے ان کے فرسودہ ’’دلائل‘‘ کے بجائے بہ زعم خویش حدِ رجم کے انکار کے لیے نئے ’’دلائل‘‘ تراش کے بڑا تیر مارا ہے۔ گویا ؎ ہم پیرویِ قیس نہ فریاد کریں گے ہم طرزِ جنوں اور ہی ایجاد کریں گے الحمد ﷲ ہم نے حدِ رجم کی مستقل شرعی سزا کے بارے میں عمار صاحب کے اس سزا کے انکار پر مبنی اُس غیر منطقی موقف کے بودے پن اور بطلان کو واضح کر دیا ہے، جو ان کے تضاد اور ذہنی کشمکش کا غماز ہے۔ اسی بے بنیاد موقف کے اثبات کے لیے یہ گروہ سیدنا ماعز بن مالک کو غنڈہ اور غامدیہ نامی صحابیہ کو قحبہ باور کرانے پر قلم و قرطاس کی تمام توانائیاں صَرف کر رہا ہے، حالاں کہ ان کی طہارت و پاکیزگی پر شک نہیں، رشک کیا جا سکتا ہے کہ دونوں سے یہ گناہ سرزد ہوا تو از خود آکر طہارت کی خاطر سزا کے لیے اصرار کیا۔ کیا یہ پیشہ ور بدمعاشوں اور چکلے چلانے والے مردوں اور عورتوں کا کام ہوسکتا ہے؟ اور کیا عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں چکلوں کا کوئی وجود تھا، جس کو آج کل ’’بازارِ حسن‘‘ یا ’’اُس بازار‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے؟ ہمارا تو یہ بات لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے اور یہ گمراہ گروہ اس مقدس ترین معاشرے میں لاہور کی ’’ہیرا منڈی‘‘ کی طرح ’’بازارِ حسن‘‘ اور ’’چکلہ‘‘ کا وجود ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تاکہ ان کے من گھڑت ’’نظریۂ رجم‘‘ کا اثبات ہوسکے۔ (نعوذ باللّٰه من ھذہ الجریمۃ المنتنۃ) عمار صاحب نے بھی اپنے ’’ائمۂ ضلالت‘‘ کی پیروی اور وکالت میں مذکورہ صحابہ و صحابیہ ( رضی اللہ عنہم ) کو پیشہ ور زانی اور زانیہ قرار دیا ہے جس پر علمائے اہلِ سنت نے بجا طور پر انھیں صحابۂ کرام کی توہین اور ان پر طعن و تشنیع کا مرتکب ٹھہرایا