کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 213
جن احادیث سے آپ کو وہ باتیں معلوم ہوئی ہیں، جن کا اعتراف آپ نے کیا ہے، کیا ان میں اس امر کی صراحت ہے کہ یہ سزا صرف غنڈوں اور بدمعاشوں کو دی گئی ہے، مطلق زانیِ محصن کو نہیں؟ اگر یہ صراحت ہے تو دکھا دیں یا ان کے ہم عصر صحابہ کی وضاحت دکھا دیں کہ زنا کا مجرم صحابی پیشہ ور زانی تھا اور صحابیہ ڈیرہ دارنی (قحبہ) تھی۔ آپ کے صغریٰ، کبریٰ ملانے سے اس کا ثبوت بہم نہیں پہنچتا یا رجم کی سزا دینے والے (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین) کی طرف سے اس تفتیش کا ثبوت مہیا کریں کہ سزائے رجم دینے سے پہلے انھوں نے تحقیق کی تھی کہ یہ زنا کے عادی مجرم ہیں یا اتفاقیہ یہ فعل سرزد ہوا ہے؟ یہ فساد فی الارض کے مرتکب ہیں یا نہیں؟ جب آپ کو دوسری باتوں کا علم ان احادیث سے ہوا ہے کہ یہ سزا سنتِ رسول ہے، سنتِ خلفائے راشدین ہے۔ شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا ہے تو ان حدیثوں میں اس امر کی بھی واضح صراحت ہے کہ یہ سزا زانیِ محصن کی ہے اور جن کو یہ سزائیں دی گئیں، اس تفتیش و تحقیق کے بعد ہی دی گئیں کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود انھوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ جب احادیث میں جرم اور مجرم کی نوعیت و کیفیت کی بھی مکمل وضاحت موجود ہے تو یہ علم و تحقیق کی کون سی قسم ہے کہ آپ احادیث کے ایک جز کو تو مان رہے اور دوسرے جز کا انکار کر کے ظن و تخمین کے تیر چلا رہے ہیں؟ یہ ایمان تو یہودیوں والا ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: {اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ} [البقرۃ: ۸۵] ’’پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟‘‘