کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 211
سبحان اﷲ، ماشاء اﷲ، چشمِ بددور! کیا خوب توجیہ ہے؟ اور وہ بھی ظن و تخمین کے انداز میں۔ یہ، یا یہ؟ جب یقین کو چھوڑ کر آدمی مفروضوں یا ظن کے پیچھے دوڑے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارے تو نتیجہ: {ظُلُمٰتٌ مبَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ} کے سوا کیا نکل سکتا ہے؟ عزیز موصوف اور ان کے ہمنواؤں نے ایک طے شدہ مسئلے کو خود ہی اُلجھا دیا ہے، اب اس کو سلجھانے کے لیے ڈور کا سرا ہی ان کے ہاتھ نہیں آرہا ہے، اس کو حل کرنے کے لیے ان کے اساتذہ یا ’’ائمہ‘‘ نے قرآن میں معنوی تحریف کی جسارت بھی کر لی، جلیل القدر صحابی کو بدمعاش اور غنڈہ بھی قرار دے دیا، ایک پاکباز صحابیہ کو پیشہ ور زانیہ اور ڈیرہ دارنی باور کرایا، اﷲ تعالیٰ کے بیان کردہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’تبیینِ قرآنی‘‘ کے منصب کا انکار کیا اور اس منصبِ رسالت کو (نعوذ باللّٰه ) قرآن کی عظمت کے منافی قرار دیا، صحابہ و تابعین سمیت تمام امت کے ائمہ، فقہا اور محدثین سب کو قرآن و حدیث سے بے بہرہ ثابت کر دیا، لیکن اتنی کد و کاوش کے باوجود ان کے ایک ’’تلمیذِ رشید‘‘ نے انکارِ رجم کے لیے ان سب کاوشوں کو مسترد کر کے ایک گو مگو والے ’’نئے اجتہاد‘‘ کے ذریعے سے اس کو ثابت کرنے کے لیے (تاکہ انحراف کا الزام ان پر عائد نہ ہوسکے) ’’اقرار نما‘‘ عجیب و غریب تعبیر فرمائی، جو بباطن انکار ہی ہے، لیکن بہ اندازِ دگر یا بہ لطائف الحیل۔ گویا سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی ان کا خاندانی بھرم بھی قائم رہ جائے اور استاذِ گرامی (غامدی) کے موقف پر بھی کوئی زد نہ آئے۔ اسے کہتے ہیں: وفاداری بشرطِ استواری! اس سارے جنجال یا گورکھ دھندے کی اصل وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قرآنی تبیین کے منصبِ رسالت سے انکار اور اپنے لیے اس کا اثبات۔ اب