کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 210
باقی رہی ان کی فساد فی الارض یا محاربہ والی توجیہ، وہ توجیہ نہیں قرآن کی معنوی تحریف اور انکارِ حدیث کا شاخسانہ ہے، جس پر ہم گذشتہ صفحات میں تفصیل سے گفتگو کر آئے ہیں۔ اب عمار صاحب کا تیسرا پیرا یا نکتہ ملاحظہ فرمائیں، جس میں وہ نہایت ’’مجتہدانہ‘‘ شان میں نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’3۔راقم کے طالب علمانہ مطالعے کے مطابق قرآن کے ظاہری حکم اور سنت کے بیان کردہ اضافے کے مابین تطبیق کے ضمن میں پیش کی جانے والی کوئی بھی توجیہ علمی اشکالات سے خالی نہیں۔‘‘ عزیزِ گرامی! حقائق مفروضوں سے ثابت نہیں ہوتے۔ فراہی گروہ سے پہلے نہ کسی نے حدِ رجم کا انکار کیا ہے نہ احادیثِ رجم کو مشکوک قرار دیا ہے اور نہ اس حد کو قرآن کے خلاف یا اس کے متعارض سمجھا ہے تو پھر وہ اس کی توجیہ کیوں پیش کرتے؟ یہ سب خود آپ کے مفروضے (خود ساختہ باتیں) ہیں۔ اس طرح جھوٹے دعوے کر کے فراہی توجیہ کی گمراہی کو کم نہ کریں اور نہ اپنی آنے والی توجیہ کا جواز تلاش کریں کہ وہ بھی سوائے گمراہی کے کچھ نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں عمار صاحب کی انوکھی توجیہ: ’’اس لیے علمی و نظری طور پر اس مسئلے میں اس بات کی بھی گنجایش ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا کو اصل اور حقیقی سزا قرار دیتے ہوئے رجم کو اضافی اور صواب دیدی سزا قرار دیا جائے اور اس کے برعکس، اس نقطۂ نظر کی بھی کہ قرآن کے ظاہری بیان کو قطعی اور فیصلہ کن نہ سمجھتے ہوئے سنت کو شرعی حکم کا مکمل بیان تسلیم کیا جائے۔‘‘[1]
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۱۸۰۔ ۱۸۱، جون ۲۰۱۴ء)