کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 202
اُلجھایا جائے؟ پہلے سے فرقوں، جماعتوں اور گروہوں میں بٹی امت کو مزید تقسیم کرنے کا ’’سنہری کارنامہ‘‘ سر انجام دیا جائے؟ ’’اس دور میں یہ ’’کمال‘‘ کی بات نہیں ہے کہ ’’محقق‘‘ بن کر جمہور امت سے ہر مسئلے میں اختلاف کو اپنا وطیرہ بنا لیا جائے، کیوں کہ اب ان ’’شواذ‘‘ آرا کے بارے میں پچھلی دو صدیوں میں کثرت سے ’’مواد‘‘ متجددین اور مستشرقین تیار کر چکے ہیں تو اسی مواد کی جگالی کرنا اسلام کی کون سی خدمت ہے؟ اور اسی مواد کو دوبارہ نئے انداز میں پیش کرنا کون سی ’’تحقیق‘‘ ہے؟ جناب عمار صاحب سے مقتدر علمی حلقوں کو یہی گلہ ہے کہ آنجناب کی ہر تحریر منفی و تنقیدی مواد پر مشتمل ہوتی ہے اور تعمیری پہلو کے بجائے اس میں تخریب کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ ’’اس لیے آنجناب سے گزارش ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ان لا یعنی اور لا حاصل بحثوں پر صَرف کرنے کے بجائے عصرِ حاضر میں اُمتِ مسلمہ کے حقیقی مسائل کو حل کرنے پر صَرف کریں۔ اُمتِ مسلمہ مغرب کا مقابلہ کیسے کرے؟ مغرب کی فکری یلغار کو کیسے روکے؟ اُمتِ مسلمہ کے ایک بڑے طبقے کا ایمان شریعت کی ابدیت و کاملیت سے اُٹھ چکا ہے اور یہ طبقہ مکمل طور پر لبرل بن چکا ہے، اس طبقے کو دوبارہ ’’اسلام‘‘ کے قریب کیسے لایا جائے؟ ’’دنیاوی تعلیم کے اعتبار سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو مسترد شدہ اور مغرب سے مرعوب کرنے والا نصاب پڑھایا جا رہا ہے، اس کی اصلاح کیسے کی جائے؟ خود علما اور دینی طبقات اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید نصاب