کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 200
ہو جائے کہ عمار صاحب کے فکری انحراف کے بارے میں ہم نے اب تک جو کچھ عرض کیا ہے اور آیندہ بھی جو کچھ عرض کیا جائے گا، اس میں ہم منفرد اور تنہا نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ صائب الفکر اور منہج سلف کا پیروکار، جس نے بھی عمار صاحب کے فکر و نظر کا جائزہ لیا ہے اور ان پر نقد و نظر کیا ہے، اس کے یہی تاثرات ہیں جن کا اظہار ہم نے کیا ہے۔ ان میں لب و لہجہ کی تندی و تلخی اور تبصروں میں سختی کی وجہ بھی وہ دینی غیرت و حمیت ہے جس کو ان افکارِ باطلہ سے سخت ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ تلخ جملوں کا یہ استعمال دراصل اس قلق و اضطراب کا اظہار ہے جس نے ایک جوہرِ قابل کے اپنوں کے بجائے غیروں کے کام آنے پر ہر درد مند دل کو تڑپا رکھا ہے۔ عزیز موصوف یا اس کے سرپرست الفاظ کی ظاہری سختی کو نہ دیکھیں، بلکہ اس اخلاص و ہمدردی اور جذبۂ خیر خواہی کو دیکھیں، جو ان الفاظ میں مضمر اور ان کا مقصد ہے۔ لیجیے! اب مولانا سمیع اﷲ سعدی صاحب کے تبصرے کے جستہ جستہ چند مقامات ملاحظہ فرمائیں: عمار صاحب کے ایک آیت سے غلط استدلال کرنے پر مولانا موصوف لکھتے ہیں: ’’آنجناب (عمار صاحب) نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے، اﷲ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’یہودی رہتے ہوئے‘‘ تم کو یہ گھر دوبارہ اﷲ کی رحمت سے مل سکتا ہے۔ آنجناب کی یہ تفسیر ’’تحریف‘‘ کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کی تائید خلف و سلف میں سے کسی ایک مفسر سے دکھا دیں۔ نیز اس آیت کی یہ تفسیر کرنے سے تو خود اس کا اوپر والی آیت کے ساتھ تو کھلا تعارض لازم آتا ہے کہ عام ’’معاصی‘‘ پر تو اﷲ نے انھیں اس