کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 197
(فراہی اور اصلاحی) اسی طرح غامدی صاحب کے تلامذہ اور ان کے متاثرین ہیں، جنھوں نے غامدی فکر کے دفاع کا فریضہ سنبھالا ہوا ہے، ان کے دفاعی دلائل کا تار و پود بکھیرنا بھی نہایت ضروری ہے، ان میں سرفہرست عمار صاحب ہیں، جو شاید مستقبل میں غامدی مسند کی جانشینی کے اہل تر ثابت ہوں گے۔ اس لیے ہم چند گزارشات عمار صاحب کی ان توضیحات کے سلسلے میں بھی عرض کرنا چاہتے ہیں، جو انھوں نے ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت (بابت جون ۲۰۱۴ء) میں پیش کی ہیں، جن میں غامدی فکر کی جھلک نمایاں ہے۔ عمار صاحب کی مجبوری یا ذہنی کشمکش: عمار صاحب کی ایک مجبوری ہے، جسے ذہنی کشمکش بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک متصلب دینی و علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ دوسری طرف غامدی صاحب کی شاگردی کے ناتے سے وہ فکرِ فراہی سے بھی خاصے متاثر ہیں اور ان دونوں نسبتوں کے تقاضے ایک دوسرے سے یکسر مختلف، بلکہ باہم متضاد اور متصادم ہیں، لیکن وہ ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا اور دونوں کے ساتھ نباہ کرنا چاہتے ہیں، جو مشرق و مغرب کو باہم ملانے یا آگ اور پانی کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔ بنا بریں وہ فکرِ غامدی یا فراہی کی اس طرح نوک پلک سنوارنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں کہ متصلب دینی حلقوں کے لیے بھی وہ جرعہ ہائے تلخ {سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ} کے درجے میں آجائیں۔ اس سعیِ لا حاصل یا ذہنی کشاکش یا بہ یک وقت دو بیڑیوں میں پیر رکھنے کی خواہش کی وجہ سے وہ اس صورت حال سے دوچار ہیں، جس کا نقشہ غالب نے ایک شعر میں نہایت کمال خوبی سے کھینچا ہے۔ ؎ ایمان مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے