کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 195
دینی مطلوبات میں شمار کرنے کے حوالے سے استاذِ گرامی کا قولِ قدیم اَقرب الی الصواب ہے، البتہ اس میں ڈاڑھی کو ’’شعار‘‘ مقرر کیے جانے کی جو بات کہی گئی ہے، اس پر یہ اشکال ہوتا ہے...۔‘‘ اس کے بعد اس کے شعار والی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایک بے بنیاد اشکال پیدا کیا ہے، جس کو ایک فاضل تعاقب نگار نے نہایت مدلل طریقے سے بے بنیاد ثابت کر دیا ہے،۔ جسے جنوری ۲۰۱۵ء کے ’’الشریعہ‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ عمار صاحب کے اس اقتباس سے ہم عمار صاحب کی اپنے استاذِ گرامی (غامدی صاحب) کی اندھی عقیدت کا ایک نمونہ دکھانا چاہتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ایک تو انھوں نے شعار والے قولِ قدیم کو اقرب الی الصواب قرار دے کر قولِ جدید کو، جو نص کے مقابلے میں قولِ مردود اور صریح گمراہی ہے، اس کا بھی جواز پیش کر دیا ہے، کیوں کہ اگر دو موقف ایسے ہوں کہ ایک حق ہو اور دوسرا باطل تو وہاں باطل کے مقابلے میں قولِ حق کو اقرب الی الصواب نہیں کہا جاتا، بلکہ ایک کو حق اور دوسرے کو باطل کہا جاتا ہے۔ ہاں جب دو موقف ایسے ہوں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی باطل نہ کہا جا سکتا ہو، وہاں ایک کو اقرب الی الصواب کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دلائل کے اعتبار سے اس کا درست ہونا زیادہ قرینِ قیاس یا زیادہ قریب ہے، اس طرح دوسرے موقف کے بھی درست ہونے کا اظہار ہوتا ہے، گو درجے میں ’’اقرب‘‘ سے کم تر ہو، لیکن اس کو باطل نہیں کہا جاتا اور نہ کہا ہی جا سکتا ہے۔ اس طرح گویا عمار صاحب نے اپنے استاذِ گرامی کے قولِ ضلال و مردود کو بھی ایک درجے میں قولِ صواب بنا کر حقِ شاگردی یا حقِ عقیدت مندی ادا کر دیا ہے۔