کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 193
ہیں۔ اس لیے تمام حدیثی احکام بھی کالعدم ہوگئے۔ ان ہی میں سے ایک ڈاڑھی کا مسئلہ بھی ہے، جو احادیثِ صحیحہ اور صریحہ سے ثابت ہے۔ اس لیے اب ان کے نزدیک ’’ڈاڑھی کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں۔‘‘[1] ظاہر بات ہے ان کا پہلا موقف نصوصِ صریحہ (احادیثِ رسول) پر مبنی تھا اور دوسرا موقف ان کے اس ’اجتہاد‘‘ کا نتیجہ ہے، جو نصوص سے انحراف کر کے انھوں نے کیا ہے، جب کہ نصوص کے مقابلے میں ’’اجتہاد‘‘ کی اجازت ہی نہیں ہے، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل صریح گمراہی اور باطل ہے۔ عمار صاحب غامدی فکر کے اس طرح نخچیر ہوگئے ہیں کہ وہ دونوں موقف کی صحت کے قائل ہیں اور وہ ان کو ’’قولِ قدیم‘‘ اور ’’قولِ جدید‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نصوصِ صریحہ کی جس طرح غامدی صاحب کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ ان کے برعکس موقف اختیار کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اسی طرح عمار صاحب کے نزدیک بھی ایسا کرنا جائز ہے، تب ہی تو انھوں نے یہ راگ الاپا ہے ع مستند ہے ان کا فرمایا ہوا اگر وہ ’’قولِ جدید‘‘ کو غلط سمجھتے تو وہ اسے قولِ جدید کے بجائے گمراہی قرار دیتے، جیسا کہ فی الواقع وہ گمراہی ہی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کا وہ قولِ قدیم بھی یہاں نقل کر دیا جائے، جس کا اظہار انھوں نے ۱۹۸۶ء میں کیا تھا اور خود عمار صاحب نے اسے نقل کیا ہے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں: ’’داڑھی نبیوں کی سنت ہے۔ ملتِ اسلامی میں یہ ایک سنتِ متواترہ کی حیثیت سے ثابت ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان دس چیزوں
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۴۳، جنوری ۲۰۱۵ء)