کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 179
گھڑت واقعات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر بالفرض اس کی صحت تسلیم بھی کر لی جائے تو اس سے صرف یہی ثابت ہوگا کہ جہاں وقوعہ کے وقت گواہ صرف عورتیں ہی ہوں گی، تو وہاں ان کی گواہی یقینا سنی جائے گی اور ایسے واقعات میں عورتوں کی گواہی سننے سے کسی بھی عالم و فقیہ کو انکار ہی نہیں ہے۔ سب اس بات کو مانتے ہیں۔ اختلاف صرف اس اَمر میں ہے کہ صرف عورتوں کی گواہی پر حد بھی نافذ کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جمہور علما اس صورت میں صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، جب کہ امام ابن تیمیہ و ابن قیم حد کے نفاذ کے بھی قائل ہیں، جیسا کہ راقم کے اصل مقالے میں اس کی ضروری تفصیل موجود ہے۔ بنا بریں راقم پوری ذمے داری سے یہ عرض کرتا ہے کہ اس کتاب میں پیش کردہ واقعات میں سے کوئی بھی واقعہ (اگرچہ ان کی استنادی حیثیت محلِّ نظر ہی ہے) علمائے کرام کے اس متفقہ موقف کے خلاف نہیں ہے، جس پر فقہائے اُمت کا اجماع ہے۔ والحمد للّٰه علی ذلک!