کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 177
کردہ روایت کے متن کے مقابلے میں دوسرے متن ہی کو ترجیح دے کر دو احتمالات بیان کیے ہیں: پہلا یہ کہ ’’اَمَرَ بِہٖ‘‘ کا مطلب ہے کہ تعزیر کا حکم دیا، (رجم کا نہیں) دوسرا احتمال یہ کہ عورت کے ساتھ آنے والے لوگوں نے اُس شخص کے خلاف گواہی دی ہو۔ (اگرچہ یہ گواہیاں غلط تھیں)۔ تاہم ان گواہیوں کی بنا پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمِ رجم صادر فرمایا۔ (ملاحظہ ہو: سنن بیہقی: ۸/ ۲۸۴۔ ۲۸۵) ان دو احتمالات کی موجودگی میں روایت سے وہ استدلال ممکن نہیں رہتا، جو بعض حضرات کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب الحدود کے بجائے اسے دوسرے باب میں ذکر کر کے مذکورہ استدلال کو کمزور کر دیا ہے، گویا اس کا تعلق ان کے نزدیک حدود سے ہے ہی نہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حسبِ ذیل باب میں یہ روایت ذکر کی ہے: ’’بَابُ مَنْ قَالَ یَسْقُطُ کُلُّ حَقٍّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ بِالتَّوْبَۃِ قِیَاسًا عَلٰی آیَۃِ الْمُحَارَبَۃِ‘‘ ’’اس بات کے بیان میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا ہر حق توبہ کے ساتھ ساقط ہو جاتا ہے، آیتِ محاربہ پر قیاس کرتے ہوئے۔‘‘ مثال پیش کرنے کا مطالبہ، کسی اصول پر مبنی نہیں ہے: ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایک مثال اس امر کی پیش کی جائے کہ جس میں عورت کی گواہی حدود میں ردّ کر دی گئی ہو، لیکن یہ مطالبہ کسی اصول پر مبنی نہیں ہے۔ جب مثبت طور پر اس کے واضح دلائل موجود ہوں (جیسا کہ مسئلہ زیرِ بحث پر موجود ہیں، جس کی تفصیل راقم نے بھی اپنے اصل مقالے (ص: ۴۷۔ ۵۲) میں ذکر کی ہے) تو اس کے بعد مذکورہ مطالبہ کوئی اہمیت اور وزن نہیں رکھتا، کیوں کہ اس کے برعکس بھی کوئی مثال پیش کرنی مشکل ہے۔