کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 176
عہدِ نبوی کے واقعے سے استدلال: عہدِ نبوی کے جس واقعے سے استدلال کیا جا رہا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ ایک مرد نے بالجبر زنا کا ارتکاب کیا اور اُس عورت کی گواہی پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملزم کو رجم کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس حدیث کی بابت راقم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ سند اور متن کے لحاظ سے مخدوش اور مضطرب ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسے غیر صحیح قرار دیا ہے۔ بعد میں ایک اور فاضل دوست نے بھی اس کے بعض راویوں پر جرح کر کے اس روایت کو ساقط الاعتبار ثابت کیا ہے۔ استنادی حیثیت سے اگر ہم صَرفِ نظر بھی کر لیں، تب بھی اس سے وہ کچھ ثابت نہیں ہوتا، جس کے لیے اُسے پیش کیا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ روایت ’’مسندِ احمد‘‘ (۶/ ۳۹۹) ’’ابو داود‘‘ (۴/ ۵۴۲، طبع مصر) ’’جامع ترمذی‘‘ (۴/ ۵۶، طبع مصر) میں آئی ہے۔ تینوں مقامات میں متن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مستغیثہ عورت کی نشاندہی پر کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ فعل کیا ہے، مدعا علیہ خاموش رہا، گویا اس کی خاموشی کو اقرار کے مترادف سمجھ کر اُس کی بابت رجم کا حکم دیا گیا۔ محض ایک عورت کے استغاثے، دعوے یا شہادت پر ایسا حکم نہیں دیا گیا، جبکہ بنائے استدلال یہ ہے کہ مدعا علیہ کے انکار کے باوجود محض عورت کے بیان پر حکمِ رجم دیا گیا۔ دراں حالیکہ مذکورہ کتابوں کے متن میں انکار کی صراحت نہیں ہے۔ البتہ سنن بیہقی میں وارد الفاظ سے انکار کا پہلو نکلتا ہے، لیکن اہلِ علم جانتے ہیں کہ صحت و استناد کے لحاظ سے ابو داود، ترمذی اور مسند احمد؛ سنن بیہقی سے فائق تر ہیں اور اس لحاظ سے بیہقی کا متن مرجوح اور دوسری کتابوں کا متن راجح اور قابلِ قبول قرار پائے گا۔ علاوہ ازیں خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی روایت