کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 175
’’اگر یہ عورتیں قسمیں نہ کھا چکی ہوتی تو سزا سے نہ بچ سکتی۔‘‘ یہ حدیث اس بات پر نصِّ صریح ہے کہ ’’أربع شھادات باللّٰه ‘‘ میں قسمیں مراد ہیں، اصطلاحی شہادت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مفسرینِ اُمت اور فقہائے کرام بھی اس آیت سے وہ استدلال ضرور کرتے، جو اب بعض لوگ اس سے کر رہے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر مرد و عورت کی گواہی کو برابر باور کرا رہے ہیں، دراں حالیکہ دونوں کی گواہی کو برابر قرار دینا قرآن و حدیث کی دوسری نصوصِ صریحہ سے بھی متصادم ہے اور یوں وہ ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ (قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے) کے بجائے ’’اَلْقُرْآنُ یُخَالِفُ بَعْضُہٗ بَعْضاً‘‘ (قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی مخالفت کرتا ہے) کا اثبات کر رہے ہیں۔ اس آیت کے استدلال کے ضمن میں، راقم اپنے مفصل مقالے میں بھی بحث کر چکا ہے، (ملاحظہ ہو: ص: ۷۰۔ ۷۶) مزید تفسیری حوالوں کے لیے دیکھیے، ضمیمہ نمبر 5۔ علاوہ ازیں لِعان کی یہ شہادت (یا قَسم) جو عورت ادا کرتی ہے، اس کا تعلق اثباتِ حد سے نہیں ہے، درئِ حد (حد کے ٹالنے) کے لیے ہے، جبکہ زیرِ بحث عورت کی وہ شہادت ہے، جس سے اثباتِ حد ممکن ہو سکے، اس میں چونکہ عورت کی شہادت سے شبہہ پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ نیز اسلام عورت کو اس عدالتی شہادت کی کھکھیڑ میں ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا، اس لیے ان کو اس فرض کے ادا کرنے سے ہی سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ الا یہ کہ کوئی واقعہ ایسی جگہ ہوجائے، جہاں عورتوں کے سوا کوئی موجود ہی نہ ہو تو وہاں ان کی شہادتوں کی بنیاد پر حد یا تعزیر کی سزا دی جا سکتی ہے۔