کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 170
کے بیان پر بھی حدِ زنا عائد کی جاسکتی ہے۔ صرف عدالت کا اطمینان کافی ہے۔ متعین نصابِ شہادت ضروری نہیں ہے۔ یہ تاویل اپنی رکاکت اور بودے پن میں بالکل واضح اَور ’’عیاں راچہ بیاں‘‘ کی مصداق ہے۔ قرآنِ کریم کے الفاظ اس بودی تاویل کو کسی طرح قبول نہیں کرتے۔ الزام کی دو نوعتیں بنا دی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ الزام فی الواقع ایک صحیح الزام ہے یا یوں ہی محض بیٹھے بٹھائے لگا دیا گیا ہے؟ آخر الزام لگانے کے بعد ہی عدالت ثبوت طلب کرے گی۔ اگر یہ دو الگ الگ جرم ہیں تو عدالت کس جرم کے تحت ثبوت مانگے گی؟ محض تہمت کے اثبات کے لیے یا الزامِ زنا کے ثبوت کے لیے؟ پہلی صورت کے لیے چار گواہوں کا پیش کرنا ضروری ہوگا، جب کہ دوسری صورت کے لیے سرے سے متعین نصابِ شہادت ہی ضروری نہیں ہے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ محض تہمت زیاد بڑا جرم ہے کہ اس کے ثبوت کے لیے تو چار گواہ ضروری ہیں۔ اگر یہ مہیا نہیں کیے جائیں گے تو تہمت لگانے والوں کو اَسّی اَسّی کوڑے لگائے جائیں گے اور الزامِ زنا (جو صدورِ زنا کے بعد عائد کیا گیا ہو) وہ ہلکا جرم ہے، جس کے لیے شہادت کا کوئی نصاب ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس موقف کی کمزوری اس سے بھی واضح ہے کہ اگر فی الواقع مسئلے کی نوعیت ایسی ہی ہوتی، جیسی کہ غامدی صاحب نے بیان کی ہے تو پھر لعان کی مشروعیت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ہے، کیوں کہ لعان کی ضرورت اسی وقت پیش آتی ہے کہ جب خاوند اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو کسی اور مرد کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن اس کی مشکل یہ ہے کہ وہ چار عینی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ نیز بیوی کی بدکاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد