کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 167
موصوف نے یہ نہیں سوچا کہ علما و فقہائے اُمت کا اصل استدلال سورت نساء میں وارد لفظ {أَرْبَعَۃ شُھَدَآء} سے ہے، جس میں عدد معدود کے مسلّمہ اصول کے مطابق چار مرد گواہ ہی اس جرم کے اثبات کے لیے ضروری ہوں گے۔ اس لیے لفظ {شُھَدَآء} کو مشترکہ جان لینے کے باوجود سورت نساء میں وارد لفظ {أَرْبَعَۃ} میں عدد معدود کے اصول کے مطابق، جب تک کسی مضبوط دلیل سے {أَرْبَعَۃ} کو بھی مشترک ثابت نہ کر دیا جائے، لفظ {شُھَدَآء} کے مشترک ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ {فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ أَرْبَعَۃً} کا انداز بتلا رہا ہے کہ یہاں محذوف {رِجَال} ہی ہے، {شُھَدَآء} نہیں ہے۔ اس لیے مفسرینِ اُمت نے بالاتفاق اس سے {اَرْبَعَۃَ رِجَالٍ} ہی جو مراد لیا ہے، وہ یقینا منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔ جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ تمام مفسرینِ اُمت نے یہاں رجال ہی کی تخصیص کی ہے، اس کے لیے ضمیمہ نمبر 2 ملاحظہ فرما لیا جائے۔ مفسرینِ اُمت کا یہ اتفاق اور فقہا کا اجماع منشائے الٰہی کو سمجھنے کے لیے ایک دلیل قطعی ہے۔ اگر یہ غلط ہوتا اور اﷲ تعالیٰ کا منشا یہاں صرف مردوں کی تخصیص نہ ہوتا تو یقینا یہ اجماعِ امت متصور نہیں کیا جا سکتا تھا، جو فی الواقع موجود ہے، کیوں کہ یہ ایک غلط بات اور منشائے الٰہی کے خلاف اجماع ہوتا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی۔ اس بنا پر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مفسرینِ اُمت اور فقہائے کرام سے فہمِ قرآن میں غلطی بھی ہوگئی ہو اور پھر اس پر اجماع بھی ہوجائے۔ اگر ان کے فہم میں غلطی ہوتی تو یقینا اس میں اختلاف ہوتا اور کچھ نہ کچھ لوگ ضرور دوسری رائے کے حامل بھی ہوتے، جس طرح کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں