کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 166
بھی (جو استمرار کا عام قاعدہ ہے) استمرار ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے قوی قرینہ ضروری ہے، بغیر کسی قرینے کے استمرار کا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے: {وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ} [البقرۃ: ۱۴] ’’جب منافقین اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم بھی ایمان دار ہیں اور جب اپنے سرداروں سے اُن کی ملاقات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘ حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہاں قرآن مجید میں لفظ ’’إِذَا‘‘ جو ماضی کے صیغے پر داخل ہوا ہے، استمرار کے لیے ہے: ’’أيْ: إِنَّ ھٰذَا شَأْنُھُمْ أَبَدَاً‘‘ (یعنی ہمیشہ وہ اسی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں)۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’{وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ} ’’منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست سست کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘ اس آیت میں بھی ’’إِذَا‘‘ استمرار کے لیے ہے۔‘‘[1] اس لیے جب تک {یَأْتِیْنَ} میں استمرار کے لیے کوئی لفظ یا واضح قرینہ نہیں ہوگا، خالی لفظِ مضارع کو استمرار کے مفہوم میں نہیں لیا جا سکتا۔ اس لیے موصوف کا دعویٰ عربی زبان کے مسلّمہ اصول و قواعد کے بھی خلاف ہے۔ 2 موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’’شُھَدَآء‘‘ کا لفظ ’’أَزْوَاج‘‘ کی طرح مشترکہ ہے، اس لیے {أَرْبَعَۃ شُھَدَآء} سے صرف چار مردوں کی تخصیص صحیح نہیں، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل سمجھے جائیں گے۔ لیکن
[1] ملاحظہ ہو: الإتقان (۱/ ۱۴۹) طبع ۱۹۳۵ء، مصر