کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 163
انکار کر دیا۔[1]
٭ اور آیت {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ} [النور: ۴] کی بابت ارشاد فرمایا گیا کہ اس میں ان لوگوں کی بابت سزا بیان کی گئی ہے، جو بیٹھے بٹھائے یونہی بغیر کسی واقعے کے صدور کے کسی پر بدکاری کی تہمت لگا دیں، اس کا تعلق زنا کے اس الزام سے نہیں ہے، جس کا فی الواقع ارتکاب کیا جا چکا ہو، کیوں کہ اس کے ثبوت کے لیے تو کسی متعین نصابِ شہادت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
موصوف کی یہ تمام باتیں قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہیں اور جیسا کہ خود موصوف نے تسلیم کیا ہے کہ ’’امت میں مَیں پہلا فرد ہوں، جس کی یہ رائے ہے، حتی کہ اس رائے میں مَیں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے بھی مختلف ہوں۔‘‘[2]
موصوف نے جو موقف اختیار کیا ہے، اُس کے دلائل پر تو آگے بحث آئے گی، یہاں فی الحال اس پہلو کی وضاحت مقصود ہے کہ فقہائے امت کے متفقہ مسلک سے انحراف نے، جو دراصل حجیتِ حدیث کے انکار پر مبنی ہے، موصوف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کتنے فخر اور تعلّی سے وہ پوری امت میں اپنے منفرد ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس زیغ و ضلال اور ’’مَنْ شَذَّ شُذَّ۔۔۔‘‘ کا مصداق بننے سے بچائے!
[1] اپنے تحریری بیان میں اس نکتے کو انھوں نے سِرے سے حذف ہی کر دیا ہے، جبکہ عدالتی بیان میں انھوں نے حد اور تعزیر کے درمیان فرق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ [ص۔ ی[
[2] خیال رہے کہ غامدی صاحب کے یہ وہ الفاظ ہیں، جو انھوں نے فاضل عدالت کے رُبرو کہے تھے۔ تاہم اپنے تحریری بیان میں اس ’’ادعا‘‘ سے اجتناب برتا ہے۔ پتا نہیں کیوں؟