کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 158
اس کا جواب دینے کا موقع دیا جائے، لیکن اس وقت کے چیف جسٹس صاحب نے اس درخواست کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ راقم نے یہ دیکھتے ہوئے کہ فاضل عدالت بوجوہ مزید وقت دینے کو مناسب خیال نہیں کرتی، اپنے اس مفصل بیان کے علاوہ، جو فاضل عدالت میں تحریری طور پر غامدی صاحب سے پہلے پیش کر چکا تھا، ذیل کی تحریر تیار کی۔ اس میں غامدی صاحب اور ان جیسے بعض دوسرے منحرفین کے پیش کردہ دلائل کا مختصر جائزہ لیا اور ان کے موقف کی کمزوری اور ان کے استدلال کے پائے چوبیں کی بے تمکینی کو واضح کیا۔ (یہ تحریر بھی اس وقت فاضل عدالت میں پیش کر دی گئی تھی) نومبر ۱۹۹۰ء کے ’’اِشراق‘‘ میں جناب غامدی صاحب نے اپنے اس بیان کا خلاصہ شائع کر دیا ہے، جو انھوں نے فاضل عدالت کے رُوبُرو پیش کیا تھا۔ چونکہ انھوں نے اپنا یہ خلاصہ شائع کر دیا ہے، اس لیے اس کے جواب میں جو تحریر شرعی عدالت کو ارسال کی گئی تھی، راقم نے بھی افادۂ عام کی خاطر اسے ’’محدث‘‘ (جنوری ۱۹۹۲ء) میں شائع کرا دیا تھا۔ اس تحریر میں قارئین شاید کچھ تشنگی اور ابہام محسوس کریں، کیوں کہ یہ تحریر خاص پسِ منظر میں لکھی گئی ہے جس میں اصل مسئلے کے بجائے مخصوص نکات ہی پیشِ نظر رہے ہیں۔ اصل مسئلے پر راقم کا مفصل مقالہ ماہنامہ ’’تعلیم الاسلام‘‘ ماموں کانجن میں بالاقساط شائع ہو چکا ہے۔ جس کی تلخیص راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ میں شامل ہے۔ عدالتی بیان: مسئلہ شہادتِ نسواں پر، جو فاضل عدالت میں زیرِ بحث ہے، دو موقف پیش کیے گئے ہیں۔ اتفاق سے اس دفعہ گذشتہ چند دنوں لاہور میں جو بحث