کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 154
غامدی صاحب نے کہا ہے کہ یہ روایت کسی منافق نے وضع کی (گھڑی) ہے[1] اور اپنے ’’استاذ امام‘‘ کی رائے نقل کی ہے کہ یہ بے ہودہ روایت ہے۔[2] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ إن شاء اللّٰه آگے ان کے ’’استاذ امام‘‘ کے نظریۂ رجم کی بحث میں ہم بیان کریں گے۔ یہ خطبہ صحیح بخاری (کتاب الحدود، رقم الحدیث: ۶۸۳۰) میں اور موطا امام مالک میں مروی ہے۔ یہ دونوں کتابیں احادیث کے صحیح ترین مجموعے ہیں۔ موطا امام مالک کی صحت کے تو فراہی گروہ کے ’’امامِ اول‘‘ مولانا حمید الدین فراہی بھی، احادیث میں اپنے ذہنی تحفظات یا تضادات کے باوجود قائل تھے۔ چناں چہ ان کا ایک مکالمہ، جو حدیث کی حجیت و عدمِ حجیت کے موضوع پر مولانا عبیداﷲ سندھی اور ان کے درمیان ہوا، قابلِ ملاحظہ ہے۔ مولانا عبیداﷲ سندھی لکھتے ہیں: ’’مولانا حمید الدین مرحوم میرے بہت پرانے دوست تھے، قرآن شریف کے تناسقِ آیات میں ہمارا مذاق متحد تھا، اگرچہ طریقے اور پروگرام میں کسی قدر اختلاف رہا۔ وہ بائبل مجھ سے بدرجہا اعلیٰ جانتے تھے اور میں حدیث ان سے زیادہ جانتا تھا۔ جب تک میں ہندوستان میں ان سے ملتا رہا، حدیث شریف کے ماننے نہ ماننے کا جھگڑا کبھی ختم نہیں ہوا۔ اتفاقاً جس سال میں مکہ معظمہ پہنچا ہوں، اسی سال وہ بھی حج کے لیے آئے۔ ہماری باہمی مفصل ملاقاتیں رہیں۔ افکار میں بے حد توافق پیدا ہوگیا تھا، مگر وہاں بھی حدیث کے ماننے نہ ماننے پر بحث شروع ہوگئی۔ ہم نے سختی سے ان پر انکار کیا اور کہا
[1] برہان (ص: ۶۱) [2] برہان (ص: ۶۲)