کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 152
کرتے ہوئے غامدی صاحب فرماتے ہیں: ’’سند کی تحقیق کے لیے یہ معیار محدثین نے قائم کیا ہے اور ایسا قطعی ہے کہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔‘‘[1] لیکن اس کے باوجود احادیث غیر معتبر اور غیر محفوظ، لیکن کلامِ عرب، جس کی بابت وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں جعلی اور الحاقی (منحول) کلام بھی ہے، یعنی عرب شعرا کے اصلی کلام میں جعلی کلام بھی شامل کر دیا گیا ہے اور اس کے اصلی اور جعلی کلام کو ممیز کرنے کا کوئی اصول و ضابطہ بھی نہیں ہے۔ نیز وہ باسند بھی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ سب سے زیادہ مستند اور قابلِ اعتماد ہے۔ اپنی اس بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بے سند قول نقل کیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’علیکم بدیوانکم لا تضلوا، قالوا ما دیواننا؟ قال: شعر الجاھلیۃ، فإن فیہ تفسیر کتابکم ومعاني کلامکم‘‘[2] ’’تم لوگ اپنے دیوان کی حفاظت کرتے رہو، گمراہی سے بچے رہو گے۔ لوگوں نے پوچھا: ہمارا دیوان کیا ہے؟ فرمایا: اہلِ جاہلیت کے اشعار، اس لیے کہ ان میں تمھاری کتاب کی تفسیر بھی ہے اور تمھارے کلام کے معانی بھی۔‘‘[3] غامدی صاحب نے اس قول کا انتساب سیدنا عمر کی طرف کیا ہے، جب ہم نے اصل کتاب تفسیر بیضاوی میں یہ قول دیکھا تو اس میں اسے ’’رُوِیَ‘‘ کے
[1] میزان (ص: ۶۱) [2] أنوار التنزیل للبیضاوي (۱/ ۴۵۹) [3] میزان (ص: ۱۹)