کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 150
بدکار (قحبہ) تھی، بلا دلیل اور جھوٹ ہے۔ ٭ ان کا یہ دعویٰ جھوٹ اور بلا دلیل ہے کہ ’’قرآن نے اپنے متعلق یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘[1] قرآن میں یہ صراحت کہاں ہے؟ ٭ کلامِ عرب، یعنی زمانۂ جاہلیت کے عرب شعرا کا کلام، جو فراہی گروہ کے نزدیک قرآن فہمی میں احادیث سے بھی زیادہ مستند اور مفید ہے، اس کی بابت دعویٰ ہے: ’’لغت و ادب کے ائمہ اس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے، جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور جو صحتِ نقل اور روایت باللفظ کی بنا پر زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘[2] کتنا بڑا دعویٰ ہے لیکن بلا دلیل، اور پھر اس کی ’’صحتِ نقل‘‘ کا دعویٰ، اس سے بھی عجیب تر ہے۔ نقدِ حدیث کے تو اصول و ضوابط منضبط ہیں، اس کے باوجود وہ غیر محفوظ اور کلامِ عرب، جس کی نہ کوئی سند ہے اور نہ پرکھنے کے اصول و ضوابط، پھر بھی ان کی صحتِ نقل کا دعویٰ۔ {اِِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} [صٓ: ۵] ٭ اور ستم ظریفی کی انتہا، یہ کلامِ عرب اس کے باوجود کہ اس میں کچھ منحول کلام بھی شامل ہے[3] (یعنی جعلی) پھر بھی سب سے زیادہ با اعتماد ہے۔
[1] میزان (ص: ۳۱) [2] میزان (ص: ۱۹) [3] میزان (ص: ۱۹)