کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 15
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم حرفے چند قرآنِ مجید کے بعد حدیث و سنتِ نبوی دینِ اسلام کا دوسرا بنیادی ماخذ ہے،[1] جس پر ایمان لانا اور اس کی اتباع کرنا ہر مسلمان کا دینی و مذہبی فریضہ ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں فرامینِ مصطفویہ اور سننِ نبویہ کی یہ حیثیت ایک مسلّمہ امر ہے، جس کے بارے میں کبھی دو رائیں نہیں رہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین، ائمۂ دین اور عامۃ المسلمین میں ہمیشہ سے یہ ایک اتفاقی امر اور اجماعی مسئلہ رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے قرآن کریم کے ساتھ ہی حدیثِ نبوی کی حفاظت کی خاطر حفظ و کتابت اور جمع و تدوین کے لیے ہر طرح کی محنتِ شاقہ برداشت کی اور اسے آنے والوں کے لیے توفیقِ الٰہی سے محفوظ بنا دیا۔ مزید برآں اس کی تحقیق اور چھان پھٹک کے لیے ایسے علوم و فنون اور اصول و قواعد تحریر کیے، جن کے ہوتے ہوئے کوئی بدباطن اس شرعی مصدر کے رخِ روشن اور گیسوئے تابدار کو داغ دار نہیں کر سکتا اور آج بھی انہی قواعد و ضوابط کی روشنی میں ہم حدیث و سنت کی تحقیق میں بہ آسانی کھرے اور کھوٹے میں تمییز کر سکتے ہیں۔
[1] حدیثِ نبوی ثبوت کے لحاظ سے ثانوی مصدر ہے، وگرنہ حجیت اور اطاعت و انقیاد میں قرآنِ مجید اور حدیثِ نبوی کی شرعی حیثیت یکساں ہے، کیوںکہ دونوں ہی وحیِ الٰہی ہیں، اور ان کی اس حیثیت میں فرق کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ نے کافر اور عدمِ فرق کے قائلین کو مومن قرار دیا ہے۔ دیکھیں: سورۃ النساء [آیت: ۱۵۰۔ ۱۵۱]