کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 141
تفصیلات براہِ راست قرآن سے اَخذ نہیں کی جائیں گی، کیوں کہ اہلِ جاہلیت کا عمل ہی کافی ہے۔ البتہ فراہی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا خود ساختہ اور بے بنیاد نظریہ براہِ راست قرآن سے اَخذ کریں اور پھر اس پر فخر کریں کہ تیرہ سو سال بعد ہم نے قرآن سے ’’اوباشی‘‘ کی سزا ڈھونڈ نکالی ہے، جو آج تک کسی کو نظر نہیں آئی، حالاں کہ وہ ’’نصوصِ قرآنی‘‘ پر مبنی ہے۔ ما شاء اللّٰه ، چشم بد دور، یہ کام بقول شاعر ؎ یوں دھم سے کوئی میداں میں نہ کودا ہو گا جو ہم نے کیا، رستم نے نہ کیا ہو گا اس تفصیل کی روشنی میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا یہ فرمان مغالطے کے سوا کیا ہے: ’’تنقید سے بالاتر اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف کتاب و سنت ہیں۔‘‘[1] اس لیے کہ اہلِ اسلام میں ’’سنت‘‘ کا جو متعارف معنی اور اصطلاحی مفہوم ہے، موصوف اس کو مانتے ہی نہیں ہیں تو پھر ان کا یہ نعرۂ مستانہ آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ تشریح و تعبیر کا حق کس کو حاصل ہے؟ 7 پھر یہ بات بھی خوب ہے: ’’ان کی تعبیر و تشریح کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے، جو اپنے اندر اس کی اہلیت پیدا کر لے۔‘‘[2] اس طرح وہ اپنا تو یہ حق سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی جس طرح چاہیں
[1] برہان (ص: ۳۷) [2] برہان (ص: ۳۷)