کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 139
بھی ان کے سر نہ آئے۔ اس لیے وہ بار بار ’’سنت‘‘ کا نام بھی لیتے ہیں اور اس کے سینے میں چھرا گھونپنے سے باز بھی نہیں آتے ؎ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں 6 مزید سنیے! ’’سنت‘‘ کے اسی جاہلی تصور کی بابت لکھتے ہیں: ’’سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے، اس لیے وہ لازماً اس کے حاملین کے اجماع و تواتر ہی سے اخذ کی جائے گی۔ قرآن میں جن احکام کا ذکر ہوا ہے، ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع و تواتر پر مبنی روایات سے متعین ہوں گی۔ انھیں قرآن سے براہِ راست اَخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعمِ خود بعض مفکرین نے اس زمانے میں کی ہے اور اس طرح قرآن کا مدعا بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔‘‘[1] ’’سنت قرآن سے مقدم ہے‘‘ پڑھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیے کہ غامدی صاحب نے سنت کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے، بلکہ یہاں ’’سنت‘‘ سے مراد وہی اہلِ جاہلیت کی سنت ہے، جو یقینا قرآن کے نزول سے پہلے تھی، اس لیے کہ پچھلے اقتباس میں وہ وضاحت کر چکے ہیں کہ عرب نزولِ قرآن سے پہلے نماز، زکات، روزہ وغیرہ سے متعارف تھے، اس لیے نہ قرآن میں ان کی تفصیلات کا ذکر ہے اور نہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرح و تفصیل بیان کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لحاظ سے ظاہر بات ہے کہ یہ سنتِ جاہلیہ اور بقول غامدی صاحب ’’دینِ ابراہیمی کی روایت‘‘ قرآن سے پہلے، یعنی قرآن پر مقدم ہے۔
[1] میزان (ص: ۴۷)