کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 137
سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرح و تفصیل کے منصب سے بھی فارغ کر دیا ہے۔ جب اس شرح و تفصیل کی ضرورت ہی نہیں ہے، عربوں کو معلوم تھا کہ اﷲ نے نماز پڑھنے کا، زکات ادا کرنے کا، حج و عمرہ کرنے کا حکم دیا ہے وغیرہ وغیرہ، تو وہ چونکہ پہلے ہی ان پر عمل پیرا تھے، وہ ان سے متعارف تھے، انھوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، ان کو ان کا طریقہ یا ان کی تفصیل پیغمبر سے معلوم کرنے کی نہ ضرورت تھی اور نہ یہ آپ کا منصب ہی تھا، زیادہ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیا، وہ صرف ان کی اصلاح و تجدید تھی۔ 5 لیکن ’’اصلاح و تجدید‘‘ بھی نہایت مبہم اصطلاح ہے اور مقطع میں سخن گسترانہ انداز کی بات ہے، ورنہ اصلاح و تجدید کا مفہوم تو اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتا، جب تک یہ واضح نہ کیا جائے کہ قرآن کے حکم یا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح و تفصیل سے پہلے عرب معاشرے کے لوگ نماز کس طرح پڑھتے تھے، زکات کس طرح ادا کرتے تھے، قربانی کس طرح کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ یہ تجدید اور یہ یہ اصلاح کی۔ اگر ان تمام احکامات کا طریقہ وہی تھا، جس پر صحابۂ کرام نے نزولِ قرآن کے وقت یا بعد میں عمل کیا، پھر تو واقعی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرح و تفصیل یعنی احادیث کی ضرورت نہیں رہتی اور غامدی گروپ جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے شارح اور مبین کی حیثیت سے فارغ کرنا چاہتا ہے، اس کی ایک ’’معقول وجہ‘‘ سمجھ میں آسکتی ہے، لیکن اگر غامدی گروپ کی طرف سے یہ وضاحت نہیں کی جاتی تو اس بے بنیاد سخن سازی کا مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ دراصل یہ گروہ احادیثِ رسول کو یکسر بے فائدہ اور ایک دفترِ بے معنی باور کرانا چاہتا ہے کہ ان تمام احکامات کو عرب پہلے ہی جانتے