کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 134
میں ’’سنن‘‘ کا لفظ ساتھ رکھا ہے۔ سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ترمذی وغیرہ اور ان سب میں احادیثِ رسول فقہی ابواب کے مطابق جمع ہیں۔ موصوف نے پہلے تو حدیث اور سنت دونوں کو الگ الگ کر دیا۔ احادیث کو ویسے ہی مشکوک یا غیر محفوظ یا (نعوذ باللّٰه ) قرآن کے خلاف اور قرآن میں تغیر و تبدل قرار دے دیا اور جس کو وہ سنت کہتے ہیں، اس کا کہیں کسی کتابی شکل میں وجود یا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ ان کا وجود اگر کہیں ہے تو صرف غامدی صاحب کے نہاں خانۂ قلب میں ہے یا ان کی لوحِ حافظہ پر ثبت ہیں اور یہ دونوں جگہیں ایسی ہیں جہاں ان کے علاوہ ان کو کوئی اور ملاحظہ کر ہی نہیں سکتا۔ اگر کہا جائے کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ان سنتوں کی بنیاد عملی تواتر ہے تو عملی تواتر کی اصطلاح تو یکسر مبہم ہے۔ اہلِ اسلام کے نزدیک تو تمام احادیثِ صحیحہ عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ اس معنی میں کہ ان احادیث کو اپنی کتابوں میں درج کرنے والوں نے اپنے سے لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلسلۂ اسناد کا اتصال ثابت کیا ہے۔ اسی لیے صحیح حدیث کہا ہی اس کو جاتا ہے، جو مرفوع، متصل ہو اور سلسلۂ رواۃ عادل، ضابط اور ثقہ افراد پر مبنی ہو۔ یہ قولی اور عملی تواتر کا ایسا بے مثال نمونہ ہے جس کی تاریخِ انسانیت میں کوئی اور نظیر موجود نہیں۔ 3 علاوہ ازیں انھوں نے ان سنتوں کی بھی تحدید کر دی ہے کہ وہ ۲۷ ہیں۔ اگر کہا جائے کہ ان کے عملی تواتر کی بنیاد یا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اس کا آغاز صحابہ ہی سے کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ صحابہ نے صرف ان ۲۷ سنتوں ہی پر عمل کیا تھا یا تمام سنتوں (احادیث) پر عمل کیا تھا؟ اس لیے سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب اور اس کا ثبوت دیا جائے کہ