کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 130
متعارض روایات کا توجیہ یا جمع و تطبیق کے ذریعے سے محمل تلاش کر لیا جاتا ہے، اس کے بعد نہ ان کے تعارض کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور نہ ان کو رد کیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب کی ایک اور زیر کی و فن کاری: ایک اور نہایت دلچسپ لطیفہ یا غامدی صاحب کی زیرکی یا ہاتھ کی صفائی ملاحظہ ہو کہ یہ پندرھویں صدی ہجری ہے، لیکن غامدی صاحب حوالہ دے رہے ہیں ’’پچھلی تیرہ صدیوں‘‘ کا۔ ایک صدی یا سوا صدی کا زمانہ ہی درمیان سے خارج کر دیا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ کوئی ذہول یا نسیان ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ یہ ان کے ہاتھوں کی وہ صفائی ہے، جس میں وہ بڑے مشاق ہیں۔ اس عبارت میں بھی انھوں نے اسی فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کس طرح؟ ملاحظہ فرمائیں۔ آپ ان کے پچھلے اقتباسات میں پڑھ آئے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اُمتِ مسلمہ کو رجم کی سزا کا تو علم تھا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے یہ سزا دی بھی۔ لیکن یہ کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ سزا ہے کس جرم کی؟ اس عقدے کو ’’تیرہ صدیوں‘‘ کے بعد امام فراہی نے حل کیا کہ یہ سزا دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی تھی۔ فراہی صاحب کی تاریخ ولادت ۱۲۸۰ھ مطابق ۱۸۶۳ء اور تاریخِ وفات ۱۳۴۹ھ مطابق ۱۹۳۰ء ہے۔ گویا ان کا زمانہ آج سے ایک صدی یا اس سے کچھ زیادہ قبل کا ہے۔ اب یہ پندرھویں صدی ہے۔ اس پندرھویں صدی سے ایک صدی نکال دیں تو چودھویں صدی نکل جاتی ہے اور تیرھویں اور چودھویں صدی، فراہی صاحب کا عرصۂ حیات ہے۔ اور جب مسئلۂ رجم کی عقدہ کشائی فراہی صاحب سے پہلے نہیں ہوئی تو اُمتِ مسلمہ کی تاریکی کا دور، جس میں وہ اپنے پیغمبر سمیت ڈوبی رہی، تیرہ صدیوں تک ہی محیط بنتا ہے۔ اس تاریکی سے