کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 126
لیکن ان روایات میں بیان کردہ اس حقیقتِ ثابتہ کو شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے ہیںاور اس پر کچھ خامہ فرسائی نہیں فرمائی۔ صرف روایات کو کنڈم کرنے ہی کو شاید کافی سمجھ لیا کہ جب یہ روایات ہی (نعوذ باللّٰه ) ’’بے ہودہ‘‘ یا ’’منافق کی گھڑی ہوئی‘‘ ہیں۔[1] تو پھر ان کے ایک ایک جز پر بحث کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دوسری بات یہ کہ جس ایک روایت سے موصوف نے استدلال کیا ہے، اس میں بھی ایک تضاد موجود ہے، لیکن اس تضاد کو نہایت آسانی سے ایک توجیہ کر کے خود ہی دور یا حل کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’رجم کے ساتھ اس روایت میں سو کوڑے کی سزا بھی بیان ہوئی ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ محض قانون کی وضاحت کے لیے ہے۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کے ساتھ زنا کے جرم میں کسی شخص کو تازیانے کی سزا نہیں دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موت کی سزا کے ساتھ کسی اور سزا کا جمع کرنا حکمتِ قانون کے خلاف ہے۔ قانون کی یہ حکمت اسلامی شریعت ہی نہیں، دنیا کے ہر مہذب قانون میں ملحوظ رکھی گئی ہے۔ حبس، تازیانہ، جرمانہ، ان سب سزاؤں میں دو باتیں پیشِ نظر ہوتی ہیں۔ ایک معاشرے کی عبرت، دوسرے آئندہ کے لیے مجرم کی تادیب و تنبیہ۔ موت کی صورت میں، ظاہر ہے کہ تادیب و تنبیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس وجہ سے جب مختلف جرائم میں کسی شخص کو سزا دینا مقصود ہو اور ان میں سے کسی جرم کی سزا موت بھی ہو تو باقی سب سزائیں کالعدم ہوجاتی ہیں۔‘‘[2]
[1] برہان (ص: ۶۱، ۶۲) [2] برہان (ص: ۱۲۷)