کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 121
ہے، وہ بھی انسانوں کو گمراہ کرنے پر تلا رہتا ہے اور انسان اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور توحید کے بجائے شرک کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ (احادیث کی بنیاد پر اگر اس مفہوم سے انکار ہے تو اپنے ’’استاذ امام‘‘ کی وہ تفسیر پڑھ لیں، جو اس آیت کے تحت انھوں نے کی ہے اور یہی مفہوم بیان کیا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے) اور ان احادیث سے یہ واضح ہوا کہ صرف فطرت کی راہنمائی کافی نہیں ہے، اسی لیے اﷲ نے اس فطری شعور کو اُجاگر اور واضح کرنے کے لیے آسمانی کتابوں اور انبیا و رسل کا سلسلہ قائم فرمایا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس سلسلۂ رشد و ہدایت اور وحی و رسالت کے ذریعے سے جو تعلیمات و ہدایات انسانوں کو دی گئیں، ان کو بیانِ فطرت نہیں، بلکہ بیانِ شریعت کہا گیا ہے۔ {شَرَعَ لَکُمَ مِّنْ الدِّیْنِ۔۔۔} [الشوریٰ: ۱۳] ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا....۔‘‘ اس لیے پیغمبر کی بعض باتوں کو شریعت ماننا اور بعض کی بابت غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’یہ بیانِ فطرت ہے، لوگوں نے اس کو بیانِ شریعت سمجھ لیا ہے۔‘‘ کیسی عجیب بات ہے؟ دین سے یا قرآن تو سارا ہی بیانِ فطرت ہے، جیسا کہ آیتِ مذکورہ سے واضح ہے۔ کیا ماحول اور شیطان کی کارستانی سے جو فطرتیں مسخ ہوجاتی ہیں، ایسی فطرتوں کو ان کی اصل فطرت کی یاددہانی کے لیے جو شریعتیں نازل ہوتی رہی ہیں، کیا وہ دو حصوں پر مشتمل ہوتی تھیں، ایک حصہ بیانِ فطرت کا اور دوسرا حصہ بیانِ شریعت کا۔ اس تفریق کی بنیاد کیا ہے؟ جس طرح احکامِ شریعت کے جانچنے اور پرکھنے کے لیے کسی کی عقل معیار نہیں ہوسکتی، اسی طرح کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق شریعت کے