کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 119
دیتا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ سب صحیح احادیث میں موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور آپ کے عمل سے ثابت ہیں تو اس گروہ نے کہا کہ یہ سب فطرت کا بیان ہیں، یہ نہ قرآن میں اضافہ ہے اور نہ شریعت کا حصہ ہے، کیوں کہ اضافہ کرنے کا حق تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ہے۔ حالاں کہ اہلِ اسلام کے نزدیک یہ اضافہ نہیں، آپ کے منصبِ رسالت کا تقاضا ہے۔ اپنے اس نظریۂ فطرت پر بھی غامدی صاحب نے لاطائل بحثیں کی ہیں۔ ان کے مذکورہ دلائل کا نقد و محاکمہ کرنے کے بعد ہمارے نزدیک اس پر بحث غیر ضروری ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو دینِ اسلام لے کر آئے، اسے دینِ فطرت بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسلام کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت میں بھی اسی بات کا بیان ہے: {فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا} [الروم: ۳۰] ’’اس دینِ فطرت کی پیروی کرو، جس پر اﷲ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ ترجمہ از تدبرِ قرآن (۵/ ۹۰، طبع اول، ۱۹۷۷ء) فطرت کے اصل معنی خلقت (پیدایش) کے ہیں، یہاں مراد ملتِ اسلام (و توحید) ہے، مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدایش، بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے، اسلام اور توحید پر ہوئی ہے، اسی لیے توحید انسان کی فطرت، یعنی جبلت میں شامل ہے، جس طرح کہ عہدِ {اَلَسْتُ} سے واضح ہے، لیکن فطرت، یعنی اسلام و توحید پر پیدا ہونے کے باوجود انسانوں کی اکثریت کو ماحول یا دیگر عوارض، فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر ہی پر باقی رہتے ہیں، جیسا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: