کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 117
ایسی کسی وصیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسی کوئی وصیت ہوتی تو صحابۂ کرام یقینا اس پر عمل کرتے اور آپ کی وفات کے بعد بالاتفاق حضرت علی کو خلیفۃ الرسول تسلیم کر کے ان کو امیر المومنین بنا لیا جاتا، لیکن چونکہ ایسی کوئی دلیل نہیں تھی، اس لیے صحابہ نے مشاورت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول اور امیر المومنین بنا لیا۔ حضرات شیعہ نے بجائے اس کے کہ اپنے من گھڑت عقیدے کو چھوڑ دیتے، اپنے عقیدے اور من گھڑت نظریے پر اصرار کیا اور اس کو ثابت کرنے کے لیے خلفائے ثلاثہ کو بالخصوص ظالم، غاصب اور منافق اور دیگر تمام صحابہ کو بھی بالعموم ،سوائے پانچ افراد کے، منافق و مرتد قرار دے دیا۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود وہ اپنے اس بے بنیاد باطل نظریے پر قائم ہیں اور اس کی وجہ سے خلفائے ثلاثہ سمیت تمام صحابہ کو (نعوذ باللّٰه ) منافق و مرتد قرار دیتے اور سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فراہی گروہ نے رجم کے حدِ شرعی نہ ہونے کا نظریہ گھڑا، اس کے لیے درجنوں صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات کا انکار کیا۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی، کیوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد شرعی کا نفاذ فرمایا اور اپنے فرامین میں بھی اسے حدِّ شرعی قرار دیا تو یہ بات بنائی کہ یہ تعزیری سزا ہے (حدِ شرعی نہیں ہے) جو اوباش اور آوارہ منش زانیوں کو (اگر وقت کا حکمران چاہے تو) دی جا سکتی ہے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ سزا تو پاکباز صحابہ و صحابیات کو بھی دی گئی تو یہ جسارت کر لی گئی کہ یہ صحابہ و صحابیات پاکباز نہیں، بلکہ (نعوذ باللّٰه ) غنڈے، بدمعاش اور اوباش قسم کے عادی زنا کار تھے اور صحابیہ بھی قحبہ (پیشہ ور زانیہ) تھی۔ {کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا} جس طرح شیعہ صحابہ کو بے ایمان اور مرتد سمجھنے میں جھوٹے ہیں، اسی