کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 116
امر کی صراحت نہیں ہے کہ مذکورہ صحابہ و صحابیات کو سزائے رجم اوباشی کی بنا پر دی گئی۔ یہ فراہی گروہ کی افترا پردازی ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر بھی کہ آپ نے یہ سزا اوباشی کی بنیاد پر دی تھی، جب کہ ایسا قطعاً نہیں ہے، اور مذکورہ صحابہ و صحابیات پر بھی کہ وہ (نعوذ باﷲ) اوباش، آوارہ منش اور غنڈے تھے۔ دراں حالیکہ وہ نہایت مقدس اور پاک باز لوگ تھے، بس بتقاضائے بشریت ان سے غلطی کا ارتکاب ہوگیا تھا، جس پر وہ سخت نادم ہوئے اور دنیوی سزا کے ذریعے سے پاک ہونے کے لیے بے قرار ہوگئے، تاکہ اخروی سزا سے بچ جائیں۔ کس قدر وہ پاک لوگ تھے اور کس قدر ان کا جذبہ پاکیزہ تر تھا؟! رضي اللّٰه عنھم ورضوا عنہ۔ اور فراہی گروہ کتنا بے باک اور دریدہ دہن ہے کہ وہ صاحبِ وحی پیغمبر کو بھی مطعون کر رہا ہے اور پاک باز صحابہ و صحابیات کو بھی بدمعاش ثابت کر رہا ہے!! بلکہ یہ اﷲ پر بھی افترا ہے، کیوں کہ وحی کا نازل کرنے والا تو اﷲ ہے، چاہے وہ وحی جلی ہو، یا خفی۔ جب اوباشی والی ’’وحیِ خفی‘‘ اﷲ کے رسول پر نازل ہی نہیں ہوئی تو پھر یہ کہنا کہ یہ نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے نزول کی کوئی دلیل فراہی گروہ کے پاس نہیں ہے، تو یہ اﷲ پر بھی افترا ہے، جب کہ اﷲ تعالیٰ اس سے پاک اور بلند و برتر ہے۔ تعالی اللّٰه عما یقول الظالمون علواً کبیراً۔ فراہی نظریۂ رجم اور شیعوں کا نظریۂ وصیِ رسول ۔۔۔ اصل میں دونوں ایک ہیں: ہمارے نزدیک فراہی گروہ کی اوباشی والی من گھڑت بات بالکل شیعوں کے گھڑے ہوئے عقیدۂ وصیِ رسول کی طرح ہے۔ شیعوں نے اپنی طرف سے یہ بات گھڑی کہ اﷲ کے رسول نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بابت وصیت فرمائی تھی کہ میری وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ اور میرے جانشین ہوں گے، لیکن حقیقت میں