کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 113
طرف منسوب کیا ہے۔ دوسرے، اسے قرآن مجید کے حکم میں تغیر قرار دیا ہے۔ تیسرے، فقہا نے ان روایات کی بنیاد پر رجم کی سزا ثابت کرنے کی ’’کوشش‘‘ کی ہے۔ یعنی ان روایات سے رجم کی سزا ثابت نہیں ہوتی، حالاں کہ وہ اس مفہوم میں نہایت واضح ہیں، لیکن، ’’دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھے‘‘ کے مصداق، فرماتے ہیں: ’’کوشش کرتے ہیں‘‘۔ چوتھے، سب سے بڑی کور باطنی یا جسارت کہ ان روایات سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور خلفائے راشدین نے جن زانیوں کو سزائے رجم دی، ان کا جرم کیا تھا؟ نعوذ باللّٰه من ذلک الھفوات والھذیانات۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سزا تو دی، لیکن جرم کی نوعیت کو سمجھے بغیر دی۔ کیا پیغمبر کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے، جو براہِ راست اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور اس کا کوئی اقدام راہِ راست سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوتا ہے تو وحی کے ذریعے سے اس کو متنبہ کر دیا جاتا ہے؟ اس پیغمبر نے اپنی زندگی میں کم از کم چار کیسوں میں حدِ رجم نافذ فرمائی اور چاروں واقعات کی روایات میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ان کو رجم کی یہ سزا اس جرم میں دی گئی کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود انھوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، لیکن موصوف فرما رہے ہیں کہ اﷲ کے پیغمبر نے الل ٹپ اور محض رجم کا شوق پورا کرنے کے لیے یہ سزا دی۔ یہ سمجھے بغیر کہ ان کا اصل جرم کیا تھا؟ اسی طرح خلفائے راشدین نے بھی یہ سزا یوں ہی دے دی اور وہ یہ سمجھنے سے ہی قاصر رہے کہ یہ سزا ہم کس بنیاد پر دے رہے ہیں؟ اسی طرح چودہ سو سال کے عرصے میں ہزاروں ائمہ، مفسرین، محدثین اور فقہا ہوئے اور آج بھی الحمد ﷲ ہزاروں کی تعداد میں قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والے موجود ہیں، لیکن کسی پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوئی اور نہ