کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 112
گزر جانے کے بعد اس سزا کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس عقدے کو امام فراہی نے حل کیا ہے۔ اس نکتے پر بحث سے پہلے غامدی صاحب کا ایک اور اقتباس ملاحظہ فرما لیجیے، جس میں انھوں نے یہی بات زیادہ کھل کر کہی ہے۔ موصوف روایاتِ رجم کی الٹی سیدھی تاویلات، غلط سلط وضاحت یا آج کل کی اصطلاح میں ان کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ ہیں وہ روایتیں اور مقدمات جن کی بنیاد پر ہمارے فقہا قرآن مجید کے حکم میں تغیر کرتے اور زنا کے مجرموں کے لیے ان کے محض شادی شدہ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سارے مواد پر جو تبصرہ ہم نے کیا ہے، اس کی روشنی میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا جائزہ لیجیے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے زنا کے بعض مجرموں کو رجم اور جلا وطنی کی سزا بھی دی ہے، لیکن کس قسم کے مجرموں کے لیے یہ سزا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفا نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزا دی؟ اس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات ان مقدمات کی رودادوں اور ان روایات کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ اس سزا کا ماخذ درحقیقت کیا ہے؟ یہی وہ عقدہ ہے جسے امام حمید الدین فراہی نے اپنے رسالہ ’’احکام الأصول بأحکام الرسول‘‘ میں حل کیا ہے۔‘‘[1] اس میں بھی موصوف کی ’’زیرکیاں‘‘ قابلِ داد ہیں، مثلاً: اس اقتباس میں بھی حدِ رجم کی شرعی حیثیت کے اثبات کو صرف فقہا کی
[1] برہان (ص: ۸۸۔ ۸۹)