کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 111
اگر قرآن کے خلاف ہے تو پھر رجم کی اس سزا کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جس کے متعلق معلوم ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض مجرموں کو دی اور خلفائے راشدین نے بھی دی؟ یہی سوال ہے جس کے جواب میں دورِ حاضر کے ایک جلیل القدر عالم اور محقق امام حمید الدین فراہی نے اپنا وہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے، جس سے صدیوں کا یہ عقدہ نہ صرف یہ کہ حل ہوجاتا، بلکہ یہ بات بھی بالکل نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ پیغمبر کا کوئی حکم بھی قرآن کے خلاف نہیں ہوتا۔‘‘[1] ملاحظہ فرمائیے! سینہ زوری اور فریب کاری کی تکنیک کہ رجم کی حدِ شرعی کی بابت اُمتِ مسلمہ کا جو اجماع ہے، جس میں خلفائے راشدین و تمام صحابہ سمیت، تمام ائمۂ سلف، محدثین، مفسرین اور فقہا شامل ہیں، کیوں کہ اس اجماع کی پشت پر احادیثِ صحیحہ و متواترہ ہیں، اس کو صرف فقہا کی رائے قرار دیا ہے، تاکہ ان کا حلقۂ ارادت آسانی سے اس بات کو قبول کر لے، جو انھوں نے اگلے جملے میں اسے قرآن کے خلاف کہا ہے، کیوں کہ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ رائے جو قرآن کے خلاف ہے، پوری اُمتِ مسلمہ کی متفقہ رائے ہے اور اہلِ اسلام کا اس پر اجماع ہے، تو پھر لوگوں کو مغالطہ دینا اور فریب میں مبتلا رکھنا نہایت مشکل ہوتا، اس لیے اسے صرف فقہا کی رائے کہا، تاکہ لوگ کہیں، ہوسکتا ہے کہ فقہا سے یہ اجتہادی غلطی ہوگئی ہو، حالاں کہ بات اس طرح نہیں ہے، یہ صرف فقہا کی بات یا رائے نہیں، ایک اجماعی اور مسلّمہ اسلامی عقیدہ ہے اور فقہا کے اجتہاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث کے محکم اور نہایت واضح دلائل پر مبنی ہے۔ دوسری بات موصوف کے اقتباس سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ چودہ صدیاں
[1] برہان (ص: ۵۷)