کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 109
۔إن شاء اللّٰه ۔ اسی عبرت انگیز حشر سے دوچار ہوں گے۔ فراہی افکار کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، انکارِ حدیث اور قرآنِ کریم کی معنوی تحریف۔ اُمتِ مسلمہ جب تک اپنے پیغمبر کو، جو ان کے نزدیک حاملِ قرآن، مفسرِ قرآن اور مبینِ قرآن ہے، مانتی رہے گی اور اس کو ماننے کا مطلب، اس کی تفسیر و تشریح اور تبیینِ قرآنی کو، جس کو حدیث کہا جاتا ہے، ماخذِ شریعت تسلیم کرنا ہے، اس وقت تک اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی ضمیر فکرِ فراہی کو کبھی ہضم نہیں کر سکے گا۔ غامدی صاحب علم و دانش کی کن مجالس کا حوالہ دے رہے ہیں، جہاں اس تحقیق کے لیے داد و تحسین کے سوا کچھ نہیں ہوگا؟ یہ مجالس مسلمان اہلِ علم و دانش کی تو ہر گز نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ کسی بھی مسلمان کا علم اور اس کی دانش، نہ انکارِ حدیث کے جرثومے کو پال سکتی ہے اور نہ قرآن کی تحریف معنوی کے زہرِ ہلاہل کو نوش جان کر سکتی ہے۔ دنیا میں ہر چیز کے گاہک اور ہر گمراہی کے خریدار موجود ہیں۔ الطاف حسین اور طاہر القادری اور اُن سے پہلے غلام احمد قادیانی جیسے مریض ذہن کے لوگوں کے بھی بے شمار پرستار ہیں۔ ان کے افکارِ باطلہ کے لیے بھی ایسی مجالس موجود ہیں، جہاں ان کے اوہامِ کاسدہ اور خیالاتِ فاسدہ کو انبیائے معصومین کی طرح مانا جاتا اور ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے نام پر غروبِ اسلام کی مجلسیں آج بھی، پرویز کے پیوند خاک ہونے کے باوجود، جاری و ساری ہیں۔ اگر فکرِ فراہی کی گمراہیوں پر بھی کچھ عفونت زدہ لوگوں کی مجلسیں برپا ہوتی رہیں گی اور اہلِ مجلس اس ’’تحقیق‘‘ پر وجد میں آکر جھومتے اور واہ واہ کرتے رہیں گے تو یقینا ایسا ممکن ہے، لیکن اس پر فخر کرنے والی کون سی بات ہے؟ اور