کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 104
لیکن اب ان کا خود ساختہ نظریۂ رجم کہ یہ اوباشی کی تعزیری سزا ہے، چھچھوندر کی طرح گلے کی پھانس بن گیا ہے، جو نہ نگلا جا رہا ہے اور نہ اُگلا جا رہا ہے، کیوں کہ اس کو وہ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے۔ ولو کان بعضھم لبعض ظھیراً۔ جب ہر طرف ہاتھ پیر مار کر دیکھ لیا کہ کوئی بات نہیں بن رہی ہے، بھلا ہوا میں کون گرہ لگا سکتا ہے یا کون آسمان میں تھگلی لگا سکتا ہے؟ تو تمام ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارا یہ نظریۂ رجم وحیِ خفی پر مبنی ہے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ وحیِ خفی کو تو آپ مانتے ہی نہیں کہ اس کے ذریعے سے اﷲ کے رسول ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں، جو قرآن میں نہیں ہے۔ جب قرآن میں اوباشی کی سزا کا ذکر ہی نہیں ہے تو پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وحیِ خفی کے ذریعے سے کس طرح یہ سزا دے سکتے تھے؟ یہ تو آپ کے بقول قرآن میں تغیر و تبدل ہے تو پھر اوباشی کی من گھڑت سزا کی بابت یہ دعویٰ کہ یہ وحیِ خفی سے ثابت ہے، کیا یہ قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہے؟ اسی طرح اس من گھڑت سزا کو ’’نصوصِ قرآنی پر مبنی‘‘ قرار دینا اگر صحیح ہے تو پھر اسے حدِ شرعی میں شمار کیوں نہیں کیا؟ قرآنی نصوص پر مبنی سزا تو تعزیری سزا نہیں ہوسکتی، وہ تو حدِ شرعی ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’روایات میں بھی، جیسا کہ ہمارے تبصرے سے واضح ہے، اس کے شواہد موجود ہیں۔‘‘ روایات کو تو آپ مانتے ہی نہیں۔ علاوہ ازیں اس میں بھی آپ کی روایتی ہشیاری صاف جھلک رہی ہے کہ روایات پر آپ نے جو غلط تبصرہ کیا ہے، اس تبصرے کو آپ ’’شواہد‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں، اگر روایاتِ حدیث ’’شواہد‘‘ ہیں تو صرف خالی روایات کا حوالہ دیں اور اپنے باطل تبصرے کے بغیر۔ اور روایات نہیں، بلکہ صرف