کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 102
3 زنا 4 قذف 5 چوری۔[1] پہلی سزا محاربہ اور فساد فی الارض یہ ایک ہی چیز ہے۔ اسی لیے اپنی دوسری کتاب ’’برہان‘‘ میں صرف ’’محاربہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔[2] اس اقتباس میں ’’نبی‘‘ کے بجائے ’’نبیوں‘‘ کا لفظ بھی قابلِ غور ہے، جسے ہم فی الحال نظر انداز کرتے ہیں، تاہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ہماری شریعت تو شریعتِ محمدیہ ہے نہ کہ شریعتِ انبیا۔ یہاں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے ’’نبیوں‘‘ کا کہنا، ان کے گمراہ ذہن کا غماز اور عکاس ہے۔ بہر حال اس اقتباس میں آپ دیکھ لیں کہ شرعی سزائیں جن کو حد کہا جاتا ہے، وہ ان کے نزدیک صرف پانچ ہیں۔ اب ان کا یہ دعویٰ کہ آوارہ منشی اور اوباشی کی سزا، اﷲ کے رسول نے وحیِ خفی کے ذریعے سے رجم مقرر فرمائی ہے۔ نیز یہاں دعویٰ کیا کہ یہ ’’نصوصِ قرآنی‘‘ پر مبنی ہے تو اﷲ کے رسول کی مقرر کردہ یہ چھٹی سزا، شرعی سزاؤں میں اس کا ذکر غامدی صاحب نے کیوں نہیں کیا ہے؟ اگر اوباشی کی یہ سزا ’’سزائے رجم‘‘ وحیِ خفی پر اور ’’نصوصِ قرآنی‘‘ پر مبنی ہے تو اسے حدودِ شرعیہ میں شمار کیوں نہیں کیا گیا؟ اسے تعزیری سزا کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟ علاوہ ازیں اگر یہ فراہی گروہ کی مزعومہ ’’اوباشی‘‘ کی مزعومہ تعزیری سزا قرآنی نصوص سے ثابت ہے تو پھر اس کے لیے ’’وحیِ خفی‘‘ کی ضرورت کیا تھی؟ قرآنِ کریم کی نصوص سے جو احکام ثابت ہیں، جن میں تبیینِ رسول کی ضرورت نہیں ہے، کیا ان کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ ان کا مبنیٰ وحیِ خفی ہے؟ جیسے ہم نے
[1] میزان (ص: ۶۱۰) [2] برہان (ص: ۱۳۷)