کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 101
اس میں غامدی صاحب نے نہایت بے باکی سے یہ نعرۂ مستانہ لگایا ہے کہ ’’امام‘‘ فراہی کی یہ ’’تحقیق قرآن مجید کے نصوص پر مبنی ہے۔‘‘ اس دعوے میں اولاً قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو بات نصوصِ قرآنی پر مبنی ہو، اسے کسی شخص کی ’’تحقیق‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ نصِ صریح سے ثابت شدہ مسئلہ تو حکمِ قرآنی اور حکمِ الٰہی ہے نہ کہ کسی ’’امام‘‘ کی تحقیق۔ اﷲ تعالیٰ نے وراثت کا ایک اصول یہ بیان فرمایا ہے: {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} [النساء: ۱۱] ’’مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے۔‘‘ اس کا مفہوم و مطلب کوئی شخص اردو میں بیان کر کے یہ کہے کہ یہ میری ’’تحقیق‘‘ ہے یا میرے ’’استاد امام‘‘ کی تحقیق ہے۔ جس کے پاس عقل و دانش کا کچھ بھی حصہ ہے وہ بقائمی ہوش و حواس ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ اگر رجم کی مزعومہ ’’تعزیری سزا‘‘ آیتِ محاربہ کی نص اور سورت نور کی آیت ۲ سے ثابت ہے (کیوں کہ آیت نور کو ملائے بغیر تو ’’نصوص‘‘ (بصیغۂ جمع) نہیں کہا جا سکتا) تو اولاً اس کو تعزیری سزا کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر تو یہ حدِ شرعی ہوئی نہ کہ تعزیری سزا، جب کہ فراہی گروہ اس کو تعزیزی سزا قرار دیتا ہے۔ غامدی صاحب نے بھی بڑی وضاحت سے لکھا کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی وساطت سے جو شریعت عطا فرمائی ہے، اس میں زندگی کے دوسرے معاملات کے ساتھ جان، مال، آبرو اور نظم اجتماعی سے متعلق تمام بڑے جرائم کی سزائیں خود مقرر فرما دی ہیں۔ یہ جرائم درج ذیل ہیں: 1 محاربہ اور فساد فی الارض۔ 2 قتل و جراحت