کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 99
اس طرح وہ اپنے شریک کو ضرر سے بچاسکتاہے ۔اس میں بائع کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ وہ اپنا حق قیمت کی صورت میں وصول کررہاہے۔شفعہ عدل وانصاف کی عظیم اور بہترین شکل ہے۔انسانی عقل وفطرت کے عین مطابق ہے اور بندوں کی مصلحتوں کے موافق ہے۔"[1] شیخ موصوف کی عبارت سے واضح ہو اکہ حیلہ جوئی کرکے کسی کوحق شفعہ سے محروم کرناشارع علیہ السلام کی مطلوب حکمتوں کی مخالفت ہے بلکہ ان کے اعلیٰ مقاصد کو نقصان پہنچانا ہے۔ (1)۔عربوں کے ہاں عہد جاہلیت میں شفعہ معروف ومشہور امر تھا۔اگر کوئی شخص اپنا گھر یا باغ فروخت کرنا چاہتا تو اس کے پاس اس کا پڑوسی یا شریک آتا اور فروخت ہونے والے حصے کواپنے حصے میں شامل کرنے کے لیے خریدار بنتا اور اس کی خریداری میں خود کو دوسروں سے زیادہ حقدار قراردیتا۔اس کانام شفعہ تھا۔شفعے کا مطالبہ کرنے والے کو (شفیع یا) شافع کہا جاتا ہے۔ (2)۔فقہائے اسلام کی اصطلاح میں شفعے کامفہوم یہ ہے کہ"ایک شخص نے مشترکہ چیز میں سے اپنا حصہ فروخت کردیا تو دوسرے شریک کا یہ حق ہے کہ وہ چیز جس کے قبضے میں چلی گئی ہے اسے اتنی ہی قیمت ادا کرکے اس سے وہ چیز حاصل کرلے۔" (3)۔اگر مشترک چیز کا ایک حصہ شریک کے علاوہ کسی اجنبی شخص نے خریدلیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ حصہ شافع (شفعے کا مطالبہ کرنے والے) کوقیمت خرید وفروخت کردے کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: " أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالشُّفْعَةَ فِيمَا لَمْ يُقَسَّمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ " "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر اس چیز میں شفعے کا حق ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔اگرحدود متعین ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں توشفعے کا حق باقی نہیں رہتا۔"[2] حدیث مذکورہ شریک کے حق میں شفعے کو ثابت کرتی ہے۔شفعہ ان چیزوں میں ثابت ہوتا ہے جو تقسیم ہوسکیں،مثلاً:زمین ،پلاٹ،باغ وغیرہ۔اگرچیز تقسیم کے قابل نہیں جیسا کہ گھر کا سامان،حیوان وغیرہ تو ان میں شفعہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ "
[1] ۔اعلام الموقعین 2/123۔ [2] ۔صحیح البخاری الشفعۃ باب الشفعۃ فیمالم یقسم۔۔۔حدیث 2257 ومسند احمد 3/296،399۔