کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 94
میں جھوٹا دعویٰ کیا یامدعاعلیہ نے انکار دعویٰ میں جھوٹ سے کام لیا باوجود یہ کہ اسے اپنے جھوٹ پر یقین ہے تو جس جھوٹے فریق کو یہ شے یا مال مل گیا اس کے حق میں یہ صلح باطل ہے کیونکہ وہ حقیقت اور سچائی کو جانتاہے اور صاحب حق کو اس کا حق دینے پر قادر ہے،لہذا اس صلح کے بموجب وہ جو کچھ لے رہاہے اس پر حرام ہے کیونکہ اس نے یہ مال ظلم اور زیادتی کرتے ہوئے لیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ" "اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔"[1] اگرچہ یہ صلح لوگوں کے ہاں درست ہوگی کیونکہ انھیں مخفی حالات کا علم نہیں ہوتا لیکن یہ صلح اس ذات کے ہاں حقیقت کو بدل نہیں سکتی جس سے آسمانوں اور زمینوں کی کوئی شے مخفی نہیں،لہذاہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے برے کاموں اور باطل حیلوں سے گریز کرے۔ مبنی برانکار صلح کےمسائل میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کسی اجنبی شخص نے مدعا علیہ کی اجازت کے بغیر مدعی ے مصالحت کرلی تو یہ صلح درست قرارپائے گی کیونہ اجنبی شخص کا اس مقصد مدعا علیہ کو قسم سے بچانا اورمخاصمت کو ختم کرناہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اجنبی شخص نے کسی کا قرض اداکردیا،البتہ اس اجنبی نے مدعی کو جو کچھ دیا اس کا مدعا علیہ سے مطالبہ نہ کرسکے گا کیونکہ اس نے جو کچھ دیا ہے تبرعاً(خوشی سے) دیاہے۔ نا معلوم حق کے بارے میں صلح جائز ہے،خواہ یہ حق دونوں فریقوں کا ا یک دوسرے پر ہویا صرف ایک فریق کا ہو بشرطیکہ اس نامعلوم کو معلوم کرنا ناممکن ہو،جیسے دونوں کا آپس کا حساب جس پر طویل عرصہ گزرچکا ہو اور دونوں کو ایک دوسرے کے ذمے حق کا علم نہیں(کہ کتنا تھا) جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو،جن کا قدیم میراث کے بارے میں اختلاف ہوا تھا،فرمایا: " اسْتَهِمَا ثُمَّ تَوَخَّيَا الْحَقَّ ثُمَّ لِيَحْلِلْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا صَاحِبَهُ" "قرعہ ڈال لو اورحق کے مطابق طے کرنے کی کوشش کرو اور ہر ایک دوسرے کی کمی بیشی معاف کردے۔"[2] کیونکہ یہ اپنے حق سے دست برداری ہے تو مجبوری کی وجہ سے نامعلوم میں بھی جائز ہے تاکہ مال ضائع نہ ہو جائے یا کسی کے ذمے دوسرے کا حق باقی نہ رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمی بیشی معاف کرنے کاحکم اس لیے دیا تاکہ پوری طرح بری الذمہ ہوسکیں کیونکہ یہ مخلوق کا حق ہے اور مخلوق کا حق عظیم ہے۔ قصاص کے معاملے میں شریعت کی مقرر کردہ دیت کے ساتھ صلح یا کمی بیشی کرکے فریقین کے درمیان صلح ہوسکتی
[1] ۔البقرۃ:2/188۔ [2] ۔سنن ابی داود القضاء باب فی قضاء القاضی اذا اخطاء حدیث 3584 والمصنف لابن ابی شیبۃ 5/27۔حدیث 2338 واللفظ لہ۔