کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 93
حکم میں ہوگی۔ انکار پر مبنی صلح کی صورت یعنی ایک شخص دوسرے پر اپنے حق کا دعویٰ کرتا ہے اور "مدعا علیہ" خاموش رہتا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ دعویٰ کس چیز کا کیا گیا ہے،پھر مدعی ،مدعا علیہ کے خاموش رہنے کی وجہ سے اپنے دعوے کی چیز کے عوض مدعا علیہ سے نقد رقم لے یا ادھار شے لینے کا وعدہ لے کر مصالحت کرلیتاہے تو اکثر اہل علم کے نزدیک ایسی صورت میں صلح جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : " الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا »" "مسلمانوں کے درمیان صلح جائز(نافذ ہونے والی) ہے،البتہ ایسی صلح جو حلال کوحرام یا حرام کو حلال قرار دے ،ناجائز ہے۔"[1] صلح کی اس قسم کا مدعا علیہ کوفائدہ یہ ہے کہ وہ خصومت اور حلف سے بچ جاتا ہے جبکہ مدعی کو گواہ پیش کرنے کی تکلیف نہیں ہوتی اور اسے اپنے حق کی وصولی میں جو تاخیر ہوسکتی تھی اس سے بچ جاتا ہے۔ انکار پر صلح مدعی کے حق میں بیع کی طرح ہوتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنے مال کا معاوضہ تصور کرتا ہے،لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے یقین کے مطابق عمل کرے۔یہ صورت ایسے ہوگی گویا مدعا علیہ نے اس سے یہ چیز خرید لی ہے،لہذا مدعی کے لیے اس کے احکام بیع والے ہوں گے،مثلاً:وصول شدہ چیز عیب کی وجہ سے واپس کرنا اور اگر شفعہ والی چیز ہوتو شفعہ کے حق کا حاصل ہونا۔ مدعا علیہ کے حق میں اس صلح کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دعویٰ سے بری الذمہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے مال کی ادائیگی اپنی قسم کے بدلے کی ہے تاکہ خود سے ضررکو دور کرے،جھگڑا ختم کرے اور مقدمہ بازی کی پریشانی سے بچ جائے۔چونکہ عزت دار افراد ایسی چیزوں سے بچ کررہنا پسند کرتے ہیں،لہذا وہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے مال ادا کردیتے ہیں۔اگر صلح کے نتیجے میں حاصل ہونے والی چیز میں کوئی عیب ہوتو مدعا علیہ اسے خیار عیب کی بنیاد پر واپس کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر وہ شفعہ والی چیز ہوتو شفعہ کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اسے کسی چیز کا عوض سمجھ کر وصول نہیں کررہا۔ اگر مبنی بر انکار کی مصالحت میں فریقین میں سے کسی نے جھوٹ سے کام لیا،مثلاً:مدعی نے کسی شے کے بارے
[1] ۔سنن ابی داود القضاء باب فی الصلح حدیث 3594۔وجامع الترمذی الاحکام باب ما ذکر عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث 1352۔