کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 87
اسی طرح یتیم کا ولی اس کے جملہ اخراجات اچھے طریقے سے پورے کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یتیم کی عزت کرنا،اس کو خوشی دینا اور پریشانی سے بچانا مستحب ہے اور اس کی دل جوئی بہت بڑا نیکی کاکام ہے۔" اگر یتیم مالدار ہوتو اس کا سرپرست اس کے مال میں سے قربانی کاجانور خرید سکتاہے کیونکہ عید کا دن خوشی کا دن ہے ۔اسی طرح سرپرست یتیم کو اس کا مال خرچ کرکے تعلیم دلواسکتا ہے کیونکہ اس میں اس کا فائدہ ہے۔ اگر یتیم کا ولی فقیر ہوتو وہ یتیم کا مال سنبھالنے کی مناسب اجرت لے سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ " "ہاں(جو)مسکین ومحتاج ہوتو وہ دستور کے مطابق کھاسکتا ہے۔"[1] امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ آیت یتیم کے والی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو یتیم اور اس کے مال کی نگرانی اور اصلاح کرتاہے تو اگر وہ ضرورت مند ہوتو اس کے مال سے کھا سکتا ہے۔"[2] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آیت: "وَمَن كَانَ غَنِيّاً فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ" "مال داروں کو چاہیے کہ(ان کے مال سے) بچتے رہیں ،ہاں! جو مسکین ومحتاج ہوتو وہ دستورکے مطابق کھاسکتا ہے۔"[3] یتیم کے ولی کے بارے میں نازل ہوئی کہ(وہ یتیم کے مال سے) بقدر نگرانی لے سکتا ہے۔[4] فقہائے کرام نے کہا ہے کہ یتیم کا ولی معروف اجرت یا بقدر حاجت ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں کم رقم بنتی ہو وہ وصول کرے۔بعض روایات میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:میری کفالت میں ایک ایسا یتیم ہے جس کے پاس مال ہے،البتہ میرے پاس مال نہیں تو کیامیں اس کے مال میں سے لے سکتاہوں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ" "زیادتی کیے بغیر اپنے یتیم کے مال میں سے کھالو۔"[5]
[1] ۔النساء:4/6۔ [2] ۔تفسیر ابن کثیر 1/602 النساء 4/6۔ [3] ۔النساء 6/4۔ [4] ۔ تفسیر ابن کثیر 1/602 النساء 4/6۔ [5] ۔سنن ابی داود الوصایا باب ماجاء فیما لولی الیتیم ان ینال من مال الیتیم حدیث 2872۔وسنن النسائی،الوصایا،باب ما للوصی من مال الیتیم اذا قام علیہ؟حدیث 3698۔وسنن ابن ماجہ، الوصایا، باب قولہ:"وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ " النساء: 4/6۔ حدیث 2718۔