کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 83
اگر کسی شخص نے، جس کواس کی صغر سنی وغیرہ کی وجہ سے ہر قسم کے مالی تصرفات سے روک دیا گیاہے کسی کی جان یا کسی کے مال کے بارے میں جنایت کا مرتکب ہواتو وہ ضامن ہوگا اور اس جنایت پر مرتب ہونے والے نقصان وتاوان کو برداشت کرے گا کیونکہ جسے نقصان پہنچایا گیا ہے اس کا نہ قصور ہے نہ اجازت۔فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ"مال و جان تلف ہونے کی صورت میں نقصان پوراکرنے کی ذمہ داری میں اہل اورنااہل برابر ہیں۔" علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"بچہ،مجنون یا سویا ہوا شخص کسی کا مالی نقصان کردے تو وہ ضامن ہوگا۔یہ شریعت کا عمومی قانون ہے جس میں اُمت کی مصلحتوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔اگر ان کے ہاتھوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں میں انھیں قصور وار نہ ٹھہرایا جائے تو کئی لوگ ایک دوسرے کے مال کانقصان کریں گے اور دعویٰ کریں گے کہ ہم سے بغیر ارادے کے غلطی ہوگئی۔"[1] دو صورتوں میں بچے کا"حجر" ختم ہوجاتا ہے۔ پہلی صورت جب وہ بالغ ہوجائے۔بلوغت کی پہچان کے لیے متعدد علامات ہیں جودرج ذیل ہیں: 1۔ سوتے یا جاگتے ہوئے منی کا انزال ہونا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا" "اور تمہارے بچے جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو انھیں اجازت مانگ کر آنا چاہیے۔"[2] واضح رہے کہ حُلم کا مطلب یہ ہے کہ طفل خواب میں ایسی کیفیت دیکھے جس سے منی دافق(اچھلنے والی) کا انزال ہوجائے۔ 2۔ شرمگاہ کے اردگرد(سخت) بالوں کااگنا۔[3] 3۔ بچے کی عمر پندرہ برس ہوجائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:"غزوۂ احد کے موقع پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوے میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی جبکہ غزوہ خندق میں مجھے اجازت مل گئی کیونکہ اس وقت میں پندرہ برس کا ہوچکا تھا۔"[4] اس روایت سے واضح ہوا کہ پندرہ سال کی عمر میں بچہ بالغ ہوجاتا ہے۔
[1] ۔اعلام الموقعین:2/150۔ [2] ۔ النور 24:59۔ [3] ۔ سنن ابی داود الحدود،باب فی الغلام یصیب الحد،حدیث 4404۔4405۔ [4] ۔صحیح البخاری الشھادات باب بلوغ الصبیان وشھادتھم،حدیث 2664۔وصحیح مسلم الامارۃ،باب بیان سن البلوغ ،حدیث 1868۔وسنن ابن ماجہ، الحدود، باب من لا یجب علیہ الحد،حدیث 2543 واللفظ لہ۔