کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 82
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہمارا دین دینِ رحمت ہے۔اس نے ہر اس چیز کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں انسان کی کوئی مصلحت ہو۔اور ہر وہ کام جس میں کسی کا نقصان تھا اس پر تنبیہ کردی اور منع فرمادیاہے۔علاوہ ازیں جس انسان میں جائز اور کسب حلال کی حدود کے اندر رہ کر مالی تصرف اور تجارت کرنے کی اہلیت ہے،اس کے لیے معاشی میدان کھلاچھوڑ دیا ہے کیونکہ اس میں انفرادی اور اجتماعی مصلحت پنہاں ہے۔اوراگر کسی انسان میں کم عمری،بے وقوفی یا فقدان عقل کی وجہ سے مالی تصرف اور تجارت کرنے کی اہلیت نہیں تو اسلام انھیں ہر قسم کے مالی تصرفات سے روکتا ہے اور اس پر ایسا نگران مقررکرنے کی تلقین کرتاہے جو اس کے مال کی حفاظت کرے اور اسے بڑھانے کی منصوبہ بندی کرتے حتیٰ کہ جب اس میں اہلیت پیدا ہوجائے تو نگران اسے سارا مال لوٹا دے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٥﴾ وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ " "بے وقوف لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، البتہ انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اور اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو ۔اور یتیموں کو ان کے بالغ ہو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو ،پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو۔"[1] پابندی کی اس قسم کا تعلق ذمہ اور مال دونوں کو شامل ہے۔جس شخص پر یہ پابندی عائد ہو وہ اپنے مال میں بیع،صدقہ یا ہدیہ وغیرہ کی صورت میں تصرف نہ کرے۔کسی قسم کا قرض،کسی کی ضمانت یاکفالت وغیرہ کی ذمے داری نہ اٹھائے کیونکہ اس طرح سے لوگوں کا مال ضائع ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایسے افراد کے ساتھ کسی عاقل،بالغ انسان کو کوئی مالی معاملہ کرنا صحیح نہیں،مثلاً:ان سے بیع کریں یا قرض یا امانتاً اور عاریتاً مال دیں۔اگر کسی نے ایسا کیاتو وہ اپنا دیا ہوا مال واپس لے بشرطیکہ اس کے پاس وہ مال بعینہ موجود ہو۔اگر وہ مال یا سامان مذکورہ افراد کے ہاں خود تلف ہوگیا یا انھوں نے تلف کردیا تو اس کامطالبہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ان پر کوئی جرمانہ یا تاوان ہوگا کیونکہ اس نے اپنی رضا ورغبت سے اپنا مال ایسے لوگوں کے حوالے کرکے خود ہی کوتاہی کی ہے،لہذا اس کا خمیازہ اسے خود ہی بھگتنا ہوگا۔
[1] ۔النساء۔4/5۔6۔