کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 78
"اور تمہارا صدقہ کرنا(قرض معاف کر دینا) تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم علم رکھتے ہو۔"[1] جو شخص قرض ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اسے مالی تصرفات سے روکنا درست نہیں ہے کیونکہ یہاں حجر کی ضرورت نہیں ۔البتہ جب قرض خواہ اس سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرے۔ تب اسے ادائیگی کا حکم دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: " مَطْلُ الْغَنيُّ ظُلْمٌ " "غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔"[2] اس کی وجہ یہ ہے کہ جن حقوق العباد کی ادائیگی اس پر لازم تھی ، وہ ان میں بلا وجہ تاخیر کر رہا ہے۔ اگر وہ باز نہ آئے تو اسے جیل کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " جو شخص اپنا قرض ادا کرنے پر قادر ہو لیکن ادا نہ کرے تو اس کو مارپیٹ کر یا قید کر کے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اصحاب مالک، شافعی اور احمد رحمۃ اللہ علیہم نے اس کی تصریح کی ہے۔ "شیخ موصوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس میں کوئی نزاع معلوم نہیں ہے۔"[3] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: " لَيُّ الْوَاجِدِ ظُلْمٌ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ " "مالدار شخص کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ایسے شخص کی بے عزتی کرنا (اس کی شکایت کرنا) اور اسے سزا دینا (قید کرنا ) جائز ہے۔"[4] چنانچہ مقروض مالدار شخص جب ٹال مٹول کا رویہ اپنائے رکھے گا تو اسے جیل وغیرہ میں بند رکھا جائے حتی کہ وہ تمام قرض ادا کردے۔اور اگر تاخیری حربوں پر مصر ہو تو حاکم وقت دخل اندازی کرکے اس کا مال فروخت کرے اور اس کے قرضے ادا کرے ۔ اس کارروائی میں حاکم انکار کرنے والے مقروض کا قائم مقام ہو گا تاکہ قرض خواہوں کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ" "نہ نقصان پہنچایا جائے اور نہ نقصان اٹھایا جائے۔[5]
[1] ۔البقرۃ:2/280۔ [2] ۔صحیح البخاری الحوالات باب الحوالۃ وھل یرجع فی الحوالۃ ؟حدیث2287۔2288۔وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم مطل الغنی ۔۔۔۔حدیث 1564۔ [3] ۔مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰه علیہ 35/402۔ [4] ۔سنن ابن داؤد القضاء باب فی الدین ھل یحبس بہ؟حدیث3628۔ومسند احمد4/222۔388۔389۔وتلخیص الحبیر3/39حدیث 1237۔واللفظ لہ۔ [5] ۔سنن ابن ماجہ الاحکام باب من بنی فی حقہ ما یضربجارہ حدیث:2340۔